وطی فی الدبرمیں تنسیخ طلاق

بخدمت جناب حضرت مفتی صاحب مدظلہ جامعہ دارالعلوم کراچی

السلام علیکم

جناب عالی! کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص اپنی بیوی سے زبردستی غلط راستے یعنی پاخانے کی جگہہ سے ملتا ہے۔ جس سے بیوی کو شدید تکلیف ہوتی ہے جوکہ ناقابل برداشت ہے۔ بیوی شوہر کو اس گندے فعل سے روکنے کے لیے اللہ کا واسطہ دیتی ہے۔ قرآن پاک کا واسطہ دیتی ہے لیکن شوہر پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ بلکہ منہ پر تشدد کرتا ہے اور رسی سے باندھ کر منہ میں کپڑا رکھ کر تا کہ آواز باہر نہ جائے دباتی ہے۔ اور اس طرح چھری دکھا کر مارنے کی دھمکی دے کر کہ تمہیں جان سے ماردینگے یہ مذکورہ غیر شرعی طریقے سے انتہائی بےرحمی سے ملتا ہے۔ جوکہ بیوی کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ کسی نے کہا کہ اس طرح کی حرکت سے بیوی پر طلاق واقع ہوگی یا نہیں۔ اگر ہوگی تو کتنی طلاق ہوگی۔ شوہر کے لیے کیا سزا ہے۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ 

عین نوازش ہوگی

شکریہ

مفتی غیب نہیں جانتا، وہ سوال کے مطابق جواب دیتا ہے۔ سوال کے سچ یا جھوٹ کی ذمہ داری سائل پر ہے، غلط بیانی کے ذریعے اپنے مقصد کا فتوی حاصل کرلینے سے حرام حلال نہیں ہوتا۔ بلکہ حرام بدستور حرام ہی رہتا ہے البتہ غلط بیانی کا مزید وبال بھی اپنے اوپر ہوتا ہے۔

اس تمہید کے بعد جواب یہ ہے کہ اگر سوال میں مذکور تفصیل درست ہو تو مذکورہ شخص کا رویہ سراسر ناجائز ہے، نیــز غیر فطری فعل یعنی وطی فی الدبر (پاخانہ کی راہ ہمبستری کرنا) سخت گناہ کبیرہ ہے، اس کی شناعت سخت ترین وعیدوں پر مشتمل احادیث کثیرہ کتب حدیث میں مروی ہیں، مثلا ایک روایت میں ہے کہ وطی فی الدبر کرنے والا ملعون ہے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالی وطی فی الدبر کرنے والے کی طرف رحمت کی نظر نہیں فرمائیں گے۔ وغیرہ ۔ نیز وطی فی الدبر کی حرمت پر تمام قابل اعتماد علماء امت کا اتفاق ہے۔ لہذا شخص مذکور پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل پر اللہ تبارک وتعالی سے صدق دل سے معافی مانگے اور توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کے لیے اس طرح کی حرکت سے اجتناب بھی اس پر لازم ہے۔ تاہم اس فعل سے نکاح نہیں ٹوٹا۔

واضح رہے کہ جس طرح شوہر پر شرعا واجب ہے کہ بیوی کے جائز حقوق ادا کرے، معروف طریقے سے بیوی کا نام نفقہ ادا کرے، اسی طرح اس پر یہ بھی واجب ہے کہ بیوی پر ظم و زیادتی نہ کرے، لہذا اگر سوال میں مذکور تفصیل درست ہو تو شوہر کا یہ فعل سراسر ناجائز ہے اور صریح ظلم ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ اس ناجائز فعل سے فورا باز آئے اور اپنی بیوی سے جائز طریقے سے ہمبستری کرے اور اس کے تمام واجب حقوق ادا کرے، اگر شوہر اس فعل سے باز نہ آئے تو بیوی شوہر سے طلاق یا خلع لے سکتی ہے، اگر شوہر طلاق یا خلع کے لیے بھی تیار نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ اس شوہر سے عدالت کے ذریعے خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔

جس کا طریقہ یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ کسی کسی مسلمان جج کی عدالت میں پیش کرے اور شرعی گواہوں سے ثابت کرے کہ فلاں وہ فلاں کے ساتھ نکاح میں ہے اور تاحال اس کی بیوی ہے۔ اور اس کے ساتھ غیر شرعی اور غیر فطری فعل انجام دیتا ہے (وغیرہ وغیرہ) جس سے اس کو سخت تکلیف اور ضرر لاحق ہے۔ اور وہ اس وجہ سے اس کی زوجیت سے نکلنا چاہتی ہے۔ اگر عدالت کے روبرو شوہر اس جرم کا اعتراف نہ کرے بلکہ منکر ہوجائے تو اگر عدالت میں شوہر موجود ہو تو اس سے قسم لی جاۓ گی، اگر اس نے قسم کھانے سے انکار کردیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ بیوی کا دعوی درست ہے۔اب جج شوہر سے کہے، اپنی بیوی سے آئندہ ظلم نہ کرنے کا عہد کرو اور اس کے تمام حقوق ادا کرو، یا طلاق، خلع کے ذریعے اسے اپنے نکاح سے الگ کرو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی کوئی مہلت دیئے بغیر اسی وقت بیوی پر طلاق واقع کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ اگر شوہر یا اس کا وکیل عدالت میں حاضر نہ ہو، جیسا کہ آج کل عموما ایسا ہی ہوتا ہے اور عدالت کے بار بار نوٹس اور سمنز جاری کرنے اور سمنز اور نوٹس کے بارے میں شوہر کے مطلع ہونے کے باوجود حاضر عدالت نہ ہو، تو شوہر کا بار بار بلانے کے باوجود عدالت حاضر نہ ہونا اس کی طرف سے قسم سے انکار (نکول) سمجھا جائے گا۔  اور اس انکار کی بنیاد پر بھی عدالت شوہر غائب کے خلاف اور بیوی کے حق میں فسخ نکاح کا فیصلہ جاری کرسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

احقر شاہ محمد تفضل علی

دارالافتاءجامعہ دارالعلوم کراچی

٧ ذوالحجہ ١٤٣٣ھ بمطابق ٢٤ اکتوبر ٢٠١٢ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/989981874704391/

اپنا تبصرہ بھیجیں