وراثت میں بیوی بیٹی والد بھائی اور بہن کے حصے

فتویٰ نمبر:628

سوال :میرے بہائی کا پچھلے دنوں رضائے الٰہی سے انتقال ہوا ہے اس نے اپنے پیچھے مندرجہ ذیل زندہ وارثین چھوڑے ہیں۔ ایک بیوی ایک بیٹی ڈھائی ماہ کی ہے ، والد، بہن ،بھائی،آپ سے گذارش ہے کہ اس کے ورثے میں سے اوپر دیئے گئے وارثین کے شرعی حصے متعین کر کے بتائیں جس کے ذریعہ اس کی میراث کو تقسیم کیا جا سکے

الجواب وباللّٰہ التوفیق 

میت کے ترکے میں سےسب سے پہلے اس کے کفن دفن کا خرچ ادا کیا جائے گا جس میں نہ اسراف کیا جائے گا نہ ہی بخل. اس کے بعد اگر میت کے ذمہ کسی کا قرض ادا کرنا باقی ہو تو وہ قرض ادا کیا جائے گا. پھر دیکھا جائے گا کہ کیا اس نے کسی ایسے شخص کے حق میں وصیت کی ہو جو اس کا وارث نہ ہو تو بقیہ مال متروکہ کے تہائی سے اس وصیت کو پورا کیا جائے گا. 

اب جو مال بچے، موانع إرث کی عدم موجودگی میں، اس سے وارثوں کو دیا جائے گا. مال کے ٢٤ حصے کیے جائیں گے، اس میں سے بیوی کو ٣ حصے (کل مال کا ١٢.٥%)، والد کو ٩ حصے (کل مال کا ٣٧.٥%) اور بیٹی کو ١٢ حصے (کل مال کا ٥٠%). اس طرح مال کی تقسیم مکمل ہو جائے گی. صورت مسئلہ میں میت کے بہن اور بھائی کو وراثت سے حصہ نہ ملے گا.

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ

(سورہ النساء، ١١)

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ

(سورہ النساء، ١٢)

واللہ اعلم بالصواب-

اہلیہ ڈاکٹر رحمت اللہ 

دارالافتاء صفہ آن لائن کورسز.

٣ جمادی الأول 

2-2-2017ء

اپنا تبصرہ بھیجیں