وجود باری تعالی

وجود باری تعالی

قسط نمبر 1۔۔

تحریر: مفتی انس عبدالرحیم

ارشاد باری ہے ” أَفِي اللَّهِ شَكٌّ “( ابراہیم 10) یعنی کیا اللہ کے جود میں بھی شک ہے ؟

عقیدہ وجود باری ، تمام مذاہب میں ایک بنیادی مسئلہ رہاہے۔ دنیا کی ہر قوم ایک ایسی ہستی کے وجود پر یقین رکھتی ہے جواس کائنات کو اتنے نظم ونسق اور شان وشوکت سے چلا رہی ہے۔ گویا روئے زمین کے تمام ادیان وملل اس عقیدہ پر اتفاق کرچکے ہیں ( سوائے چند لوگوں کے جن کی فطرتیں مسخ ہوچکی ہیں ) قرآن کریم میں توحید کا تو جگہ جگہ ذکر ملتا ہے لیکن وجود باری، کے مسئلہ کا شاذ ونادر مواقع پر ذکر ہے، اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ اس مسئلہ کو یہود وہنود،نصاری ٰومجوس سب ہی مانتے ہیں بحیثیت مسلمان ہم بھی کامل یقین سے اسے مانتے ہیں ۔

ایک وقت تھاجب صرف دہریہ مذہب کو منکر خدا کے نام سے جانا جاتا تھا ،لیکن پھر بھی علمائےاسلام نےاس چھوٹی سی جماعت کے بطلان کوواضح کیا؛لیکن آج کے اس دور میں جبکہ الحاد بہت پھیل گیا ہے اس پر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔

مادی ترقی اور اخلاقی زوال کا رشتہ:

آج کا دور مادی ترقی کا دور ہے۔ آج ایک طرف مادی ترقی افزون تر ہے، نت نئے انکشافات اور محیر العقول ایجادات کی بھرمار ہے، حضرت انسان نے چاند اور مریخ پر کمندیں ڈال دی ہیں تو دوسری طرف الحاد و زندقہ کا دور دورہ ہے خدا کی ہستی کو فراموش کیا جارہا ہے ۔

مادی ترقی اوراخلاقی زوال تاریخ انسانی میں لازم ملزوم رہے ہیں۔ آج ایک طرف سائنس کی تیز رفتاری ہے تو دوسری طرف انسانیت اخلاقی اعتبار سے انتہائی پستی کی طرف رواں ہے ایسے دور میں منکرین خداتعالیٰ کی تردید کی زیادہ ضرورت ہے ۔

چونتیس (34)فی صد طلبہ الحاد کا شکار

ایک یورپین تحقیق کے مطابق کالج میں پڑھنے والے 34 فیصد طلبہ منکر خدا ہوجاتے ہیں ۔ہمارے اسلامی ممالک میں ایسی نوجوان نسل کی کمی نہیں جنہیں ان کے والدین اعلیٰ تعلیم کے خیال سے لندن اور امریکہ بھیجتے ہیں لیکن کچے ذہن کے یہ طلبہ وہاں سے ملحدانہ اور دہریانہ عقائد کے حامل بن کر لوٹتے ہیں۔ رفتہ رفتہ مسلم ممالک کا مغربی تعلیم یافتہ طبقہ بھی خدا اور دین ومذہب کی قید بندیوں سے نکلتا نظر آرہاہے، مادی ترقی تو عروج پر ہے پر باطنی ترقی کا کسی کوخیال نہیں ، سائنس ٹیکنالوجی اور اسباب کوخالق کا درجہ دے کر حقیقی سبب کو بھلا بیٹھے ہیں اسی کو علامہ اقبال ؒ نے کہا؎ ۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

ایسے نازک حالات میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ کہیں کائنات کومنصہ شہود پر لانے والی ہستی پر ہمارا ایمان متزلزل تو نہیں ہورہاہے؟

اس عقیدہ پر استحکام اس وقت پیدا ہوگا جب ہم کائنات میں ودیعت کردہ قدرت کی ان گنت نشانیوں میں غور کریں گے، آثار سے مؤثر تک پہنچیں گے، مخلوق سے خالق کو پہچانیں گے اور یہی قرآن کابھی طرز استدلال ہے اور اسی کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔

قرآن کریم میں ہے :﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ﴾ (سورۃ البقرہ :164)

اس آیت میں مندرجہ ذیل چیزوں میں غور کرنے کی تلقین ہے: آسمان، ز مین، دن رات کے اختلاف ،کشتی اور سمندر ، بارش ، حیوانات، ہوا اور بادل ۔

علامہ سید محمود آلوسی بغدادی اس آیت کے تحت ایک حدیث نقل فرماتے ہیں ، ویل لمن قرأھاولم یتفکر فیھا ( روح المعانی 2/33)یعنی ہلاکت ہوا س شخص کے لیے جس نے اس آیت کو پڑھا اور پھر ا س میں غور نہیں کیا۔

اس حدیث سے قدرت کی نشانیوں میں غور کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے ۔ آئیے ہم سورۃ بقرہ کی اس آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں غور کریں :

آسمان میں وجود باری تعالی کے دلائل :

اس آسمان کے نیچے بسنے والے ہمارے نظام شمسی اس کے 10 سیاروں اور اس جیسے ہزاروں نظام شمسی اوران کے سیاروں ،ستاروں پھر ان کے کم اور زیادہ چاند اور ان کا اپنے اپنے سیاروں کے گردش سیاروں کی سورج کے گرد گردش ، پھر ان پر لیل ونہار دن مہینے اور سال کا عظیم فرق ان کے رنگ، اسباب کے درجہ میں ان کی تاثیر اوران کے اس مضبوط نظم ونسق پر غور کریں!

ہمارے نظام شمسی کے علاوہ دوسری کہکشاؤں ، ستاروں دمدار ستاروں اور شہاب ثاقب پر غور فرمائیں کس منظم اندازسے چل رہے ہیں پھر یہ لامحدود خلا بھی قدرت کا عظیم شاہکار ہے ۔

امریکن خلانوردجان گلین اپنے ایک مقالے میں لکھتا ہے:

” یہی وہ ا یک واحد شئ ہے جوخلا میں خدا کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ کوئی طاقت ہے جو ان سب کو مرکزومحور سے وابستہ رکھتی ہے ۔”

آگے جہاز کو قطب نما کی ضرورت پیش آنے کے متعلق لکھتا ہے:

“وہ قوت جو قطب نما کو متحرک رکھتی ہے ۔ ہمارے تمام حواس خمسہ کے لیے ایک کھلا چیلنج ہےاسے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ چھوسکتے ہیں نہ چکھ سکتے ہیں نہ سونگھ سکتے ہیں حالانکہ نتائج کا ظہور اس پر واضح دلالت کررہا ہوتا ہے کہ یہاں کوئی پوشیدہ قوت ضرور موجود ہے ( معارف القرآن 494 بحوالہ ماہنامہ سیربین )

اندازہ لگائیں کہ یہ آسمان کتنا بڑا ہوگا لیکن غور کریں کیا ہمیں کہیں ستون دکھائی دیتے ہیں ؟ایک چھوٹی سی کٹیا بغیر ستونوں کے قائم نہیں رہ سکتی لیکن عجب شان ہےاس قادر کی جس نے اتنے بڑے آسمان کو بغیر ستونوں کےقائم کردکھایا۔

زمین میں وجود باری کے دلائل :

زمین کی خشکی پر جن نظر نواز مناظر کاسامان ہے اس میں غور فرمائیں یہ سبزہ وسمن، دل کش بلندیاں، رنگا رنگ بستیاں ، فرازکوہ سے گرتی ہوئی نغمات گاتی ندیاں ، بنجر زمینیں ، گھٹاؤں میں لپٹی ہوئی کوہستانی سلوٹیں، خوب صورت کہساروں کی حسین اونچائی، ان کی رنگا رنگی، اپنے دامن میں لیے ہوئے غاروں کی رعنائی یہ سب وجود باری پر ناطق ہیں۔

پہاڑی سلسلوں میں وادی جاوا جسے وادی موت سے موسوم کرتے ہیں قابل غور ہے اس میں جو جان دار گیا واپس نہیں آیا کتنے ہی جان داروں کی ہڈیاں اور کپڑے وہاں ملتے ہیں ، یہ ایک خاص قسم کے زہریلے درخت، یا آتش فشاں پہاڑوں کی زہریلی گیس کا اثر ہے جوقدرت نے انہیں ودیعت کیا۔ ( سائنس اورا سلام 276)

پھر ان لہلہاتے کھیت اور مسکراتے نباتات میں عجائب کا کیا ہی بیان ہے؟ پھولوں کی خوش نمائی، پتوں کی دل ربائی کتنی حسین لگتی ہیں؟ہر درخت کی سبزی دوسرے سے مختلف، پتوں کی لکیریں دوسرے پتوں سے مختلف، ہوا سے غذا حاصل کرنے والے پودوں پر معلق پودے جن کی جڑیں زمین میں نہیں ہوتیں ۔ بیروت میں پائے جانے والے انسان اورچڑیا کی شکل کے پودے ، چھوئی موئی کا درخت کہ جو حرکت یاچھونے سے سکڑجاتا ہے ۔ نباتاتی گھڑی، جانوروں اور مکھیوں کوشکار کرنے والے نباتات اور بے پناہ نشانیاں یہ سب قادر مطلق کےوجود پر دلالت کرنے والی ہیں۔

اب توخوردبین ( مائکرواسکوپ) کی کرشمہ سازی نے تودیواروں اور پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی کائی اور سبزغبار میں جنگلات اور مرغزاروں کو دریافت کرلیا ہے۔ جن میں ہر قسم کے پھل، پھول، درخت، بیلیں اور ان کے پتوں کا تفاوت بھی معلوم ہوا ہے ۔ ( تفصیل کے لیےاسلام اور سائنس ترجمہ الرسالتہ الحمیدیہ 383 تا 288 ملاحظہ فرمائیں)

کشتی، بحری جہازوں اورسمندر میں وجود باری تعالی کی نشانیاں

ہماری اس زمین کا 75 فیصد حصہ پانی ہے اسے آپ بحر محیط کہہ سکتے ہیں پھر 25 فیصد خشکی میں بھی پانی کا ذخیرے ہیں، سوائے چند ذخیروں کے سارا بحر محیط نمکین پانی ہے اگر یہ پانی میٹھا ہوتا نمکین اور کڑوا نہ ہوتا تو تابکاری اثرات ، آلائشوں اور سمندری مخلوق کی وجہ سے بہت پہلے خراب ہوچکا ہوتا یہ خالق کی کرم نوازی ہے جو اسے کڑوا بنایا ہے ۔ قرآن کریم میں ہے: ( مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ (الرحمٰن 19۔20 )

سمندر میں بعض جگہیں ایسی ہیں کہ ایک ہی سمندر کا پانی ہے درمیان میں ایک دھاری سی نظر آتی ہے اس کے ایک پار میٹھا پانی ہوتا ہے اور دوسرے پار کڑوا، کڑوے پانی میں طوفانی تلاطم ہوتا ہےاور میٹھا ساکن۔

کشتیاں بھی بعض لوگ میٹھے پانی میں ہی چلاتے ہیں ایک ہی سمندر مختلف نوعیت کے دو دریا نظر آتے ہیں ۔چاٹگام، باریساں اورگجرات میں ڈابھیل سملک ضلع سورت یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں اس کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے ۔( بیان القرآن ج 8ص 55 تفسیر عثمانی ص 472 معارف القرآن ص 479 ج 6).

سائنسی تحقیق

کوسٹو ایک بڑا فرانسیسی سائنسدان ہے پانی کی تحقیقات میں مشہور ہے اس نے اس بارے میں بہت تحقیق کی ایک سمندر کا رنگ مختلف ہے دوسرے کا اس سے مختلف ہے دونوں آپس میں ملتے کیوں نہیں ؟ اس نے تحقیق کے بعد یہ دریافت کیا کہ بحیرہ روم اور بحیرہ اوقیانوس اٹلانٹک کیمیاوی اور حیاتیاتی لحاظ سے بہت مختلف ہے وجہ یہ بیان کی جبرالٹر ( قدیم جبل لطارق ) کے جنوبی ساحلوں ( مراکش ) اورشمالی ساحلوں ( اسپین) سے بالکل غیر متوقع طور پر میٹھے پانی کے بہت بڑے چشمے ابلتے ہیں یہ چشمے ایک دوسرے کی طرف 45 ڈگری زاویہ پر تیزی سے بڑھتے ہوئے ایک ڈیم نما کنگھی کے دندانوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ، یہ دونوں پانی میں آڑ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے بحیرہ روم اور اٹلانٹک ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں۔ اس تشخیص کے بعد جب سورہ رحمٰن کی مذکورہ آیات دکھلائی گئی تو بے حد حیران ہوا اور قرآن کی عظمت کی تعریف کرتے ہوئے مسلمان ہوگیا ۔( سنت نبوی اور جدید سائنس 292تا293 )

سمندرکی مخلوق خشکی کی مخلوق سے زیادہ ، سمندری پھول زمینی پھولوں سے انتہائی خوب صورت ،سمندری موتی اور مونگے زمینی جواہرات سے اعلیٰ درجہ ، سمندری پہاڑ ٹیلے صحرا سب خالق کے وجود کی نشانیاں ہیں۔ سمندر کی اندھیری گہرائیوں میں 30 مختلف رنگ دیتی ہوئی لاتعداد مچھلیوں اور اعلیٰ درجہ سمندری پہاڑ ، ٹیلے، صحرا سب خالق کے وجود کی نشانیاں ہیں سمندر کی اندھیری گہرائیوں میں 30 مختلف رنگ دیتی ہوئی لاتعداد مچھلیوں اور نیلے رنگ کی مکڑیوں نے طلسماتی سماں پیدا کیا ہوتا ہے ، سمندری انسان سمندری کتا اور خنزیر کوئی پہیلیاں نہیں حقیقت ہیں علامہ دمیری متوفی 808ھ نے حیوۃ الحیوان میں اورھدایہ ص442ج 4پر بھی ان کا ذکر کیاہے ۔دنیا میں جتنی تجارت ہوتی ہے اکثر حصہ کا دارومدار بحری جہازوں اور راستوں پر منحصر ہے اگر یہ نہ ہوں تو دنیا کا کاروبار ٹھپ ہوجائے ۔

لیل ونہارمیں وجود خداوندی کے دلائل:

دن رات کی مختلف حالتوں کودیکھیے! دن سراپائے روشنی ہے تو رات تاریکی کی بستی۔ اگر دن میں روشنی ہی روشنی ہوتی ، رات کی تاریکی نہ ہوتی یا تاریکی کو دوام ہوتا دن کی سفیدی غائب ہوتی توزندگی کس قدر بے کیف ہوتی ؟

دھوپ سے لدی ہوئی دن کی ساعتوں میں جو احساس ہوتاہے آسمان کی قندیلوں سے مزین راتوں میں آپ کا وجدان اس سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ پھر دن کو دیکھیے کہ کاروباری سرگرمی ہے رات کو دیکھیے کہ سبھی بستر پرخوابیدہ ہیں، نیند صحت کی جان ہے۔

ذرا س میں غور کیجیے کہ روشنی میں نیند کم آتی ہے اگر آتی ہے تو آنکھ جلد کھل جاتی ہے اگر اللہ نیند کورات کے بجائے دن میں رکھتے توکتنی دقت ہوتی؟ تمام ذی روح کی نیند ایک وقت میں جبری کردی گئی ہے کیونکہ اگر ہر انسان کے نیند کے اوقات مختلف ہوتے تو جس وقت کچھ لوگ سوناچاہتے دوسرے لوگ کاموں میں مشغول ہوتے تو شوروشغب اور مزدوروں کی چلت پھرت ان کی نیند میں خلل انداز ہوتی ،انسان کی ہزاروں حاجتیں دوسرے سے متعلق ہوتی ہیں ۔اگراوقات استراحت مختلف ہوتےتو باہمی اس تعاون وتناصر میں شدید حرج ہوتا۔ ( معارف القرآن) (جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں