زبردستی نکاح کاحکم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مفتی صاحب! ہماری جاننے والی ایک لڑکی جو ڈاکٹر ہے اس کے باپ نے اس کا نکاح جبرًا اپنے بھتیجے سے کرادیا زبردستی نکاح نامہ پر دستخط کرادیئے بظاہر اس لالچ میں کہ خاندان کی جائداد خاندان سے باہر نہ جائے کیوں کہ زمیندار لوگ ہیں، اب وہ لڑکی اس نکاح سے خوش نہیں کیا راستہ اختیار کرے؟ لڑکا طلاق نامہ پر دستخط کرنے پر تیار نہیں ہے۔کیا کورٹ سے اس نکاح کو ختم کیا جا سکتا ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب:

بالغہ لڑکی کا جبری نکاح اس طور پر ہواکہ لڑکی سے زبردستی نکاح نامہ پر دستخط کروالیے گئے اور اس نے زبان سے اقرار نہیں کیا تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فَذَكَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةً. فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

(ص:221 ، اعلاء السنن :11 /77، کتاب النکاح، باب لا یشترط الولي في صحۃ النکاح البالغۃ)

(قَوْلُهُ وَلَا تُجْبَرُ بِكْرٌ بَالِغَةٌ عَلَى النِّكَاحِ) أَيْ لَا يَنْفُذُ عَقْدُ الْوَلِيِّ عَلَيْهَا بِغَيْرِ رِضَاهَا عِنْدَنَا

(ص118 – كتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري – باب الأولياء والأكفاء في النكاح – المكتبة الشاملة الحديثة)

لا يَجُوزُ نِكَاحُ أَحَدٍ عَلَى بَالِغَةٍ صَحِيحَةِ الْعَقْلِ مِنْ أَبٍ أَوْ سُلْطَانٍ بِغَيْرِ إذْنِهَا بِكْرًا كَانَتْ أَوْ ثَيِّبًا

(ص287 – كتاب الفتاوى الهندية – وقت الدخول بالصغيرة – المكتبة الشاملة الحديثة)

لیکن لڑکی نے اگر زبان سے قبول کرلیا، خواہ دباوٴ میں آکر یا جبراً، نکاح منعقد ہوجائے گا۔زبردستی کرنے والے گناہ گار ہوں گے۔

التَّصَرُّفَاتُ الشَّرْعِيَّةُ فِي الْأَصْلِ نَوْعَانِ: إنْشَاءٌ وَإِقْرَارٌ، وَالْإِنْشَاءُ نَوْعَانِ: نَوْعٌ لَا يَحْتَمِلُ الْفَسْخَ وَنَوْعٌ يَحْتَمِلُهُ أَمَّا الَّذِي لَا يَحْتَمِلُ الْفَسْخَ فَالطَّلَاقُ وَالْعَتَاقُ وَالرَّجْعَةُ وَالنِّكَاحُ وَالْيَمِينُ وَالنَّذْرُ وَالظِّهَارُ وَالْإِيلَاءُ وَالْفَيْءُ فِي الْإِيلَاءِ وَالتَّدْبِيرِ وَالْعَفْوِ عَنْ الْقِصَاصِ، وَهَذِهِ التَّصَرُّفَاتُ جَائِزَةٌ مَعَ الْإِكْرَاهِ

(ص182 – كتاب بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع – فصل في بيان حكم ما يقع عليه الإكراه – المكتبة الشاملة الحديثة)

کل تصرف یصح من الھزل کالطلاق والعتاق والنکاح یصح مع الإکراہ۔

(البحر الرائق 8؍75 زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ 5؍33 زکریا، الدر المختار علی الشامي 9؍189 زکریا)

اس سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ نکاح منعقد ہوگیا ہے۔ اب یہ سوال کہ آیا عدالت کے ذریعے اس نکاح کو فسخ کرایا جاسکتا ہے تو۔۔

اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ صرف پانچ عیوب کی بنا پر قاضی کو تفریق کا حق ملتا ہے، ایک اس وقت جب شوہر پاگل ہوگیا ہو، دوسرے جب وہ نان و نفقہ ادا نہ کرتا ہو، تیسرے جب وہ نامرد ہو، چوتھے جب وہ بالکل لاپتہ ہوگیا ہو، پانچویں جب غائب غیر مفقود کی صورت ہو۔۔۔ ان صورتوں کے سوا قاضی کو کہیں بھی تفریق کا اختیار نہیں ہے۔۔۔۔ اور محض عورت کی ناپسندیدگی کسی بھی فقہ میں فسخ نکاح کی وجہ جواز نہیں بنتی۔

(ماخذہ اسلام میں خلع کی حقیقت مولفہ مفتی محمد تقی عثمانی ص243)

نیز ان تمام صورتوں میں فسخ نکاح کے لیے اپنی اپنی شرائط ہیں، اگر ان شرائط کی پاسداری کرتے ہوئے فسخ نکاح کا فیصلہ کر دیا جائے تو وہ شرعاً نافذ ہوگا ورنہ نہیں۔

اگر لڑکی نے نہ چاہتے ہوئے بھی نکاح قبول کرلیا تھا تو بھی نکاح تو بھی چونکہ نکاح منعقد ہوگیا تھا، اب جب تک شوہر طلاق نہ دے یا خلع نہ کرلے اس وقت تک اس لڑکی کا دوسری جگہ نکاح کرنا حرام ہوگا۔ اس معاملے کو حسن و خوبی سے رفع دفع کرنے کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ یا تو شوہر اور بیوی دونوں کے رشتہ داروں سے کچھ معزز افراد مل کر معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کریں، اکر معاملہ حل نہ ہوسکے تو طلاق یا خلع کے ذریے معاملہ کو رفع دفع کردیا جائے إذا وقع بین الزوجین اختلاف أن یجتمع أھلھما لیصلحوا بینھما فإن لم یصطلحا جاز الطلاق والخلع (شامی، ج۵، ص۸۷، ط․ زکریا دیوبند)

واضح رہے کہ خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے جس میں فریقین یعنی میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے، اگرایک فریق بھی خلع پرراضی نہ ہوتوشریعت کی نگاہ میں وہ خلع نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگر عدالتی خلع میں شوہر کی رضامندی بھی شامل ہو یا اس نے دستخط وغیرہ کے ذریعے اسے منظور کیا ہو تو ایسا خلع معتبر ہوگا، اور اس کے بعد عدت گزار کر (اگر خلوت صحیحہ یا باقاعدہ رخصتی ہوئی ہو) لڑکی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ بصورتِ دیگر یک طرفہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہے، لہٰذا اس کے بعد دوسری جگہ نکاح بھی جائز نہیں ہوگا۔

بیوی ساتھ نہیں رہنا چاہتی تولڑکے کو چاہیے کہ خوش اسلوبی سے یا تو طلاق دیدیں یا رضامندی سے خلع کرلیں ۔

لمافی القرآن الکریم (البقرة:۲۲۹):فَإِنْ خِفْتُمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ تِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا وَمَن يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَاُولٰئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔

وفی الھندیۃ (۴۸۸/۱):إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية۔

وفی الشامیۃ (۴۴۱/۳): وأما ركنه فهو كما في البدائع إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول۔

اپنا تبصرہ بھیجیں