زکوٰۃ کی ادائی کس تاریخ سے کی جائے؟

سوال:اسلام علیکم! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ : میرے ابو نے مجھے میرے بھائی کی شادی پر دو ہلکے سیٹ سونے کے گفٹ دیے جو تقریباً 3 تولا کے ہونگے اور تھوڑی سی کیش میرے پاس رہتی تھی شعبان کے مہینے میں، میں جب کنواری تھی سب کے زیورات کی زکوٰۃ ابو دیتے تھے، لیکن میں کہتی ابو نے مجھے دیے ہیں ان کی زکوۃ میں خود دیتی ہوں، میرے ابو رجب میں زکوٰۃ کا حساب کرتے تھے، پھر میری شادی ہوئی اور ابو نے مجھے بہت سارے نئے  زیورات دیے، اور مہر کے زیورات بھی سسرال والے نکاح سے ایک دو دن پہلے دے گے، میرا نکاح 8 ذوالحجہ کی شام کو ہوا، شادی کے بعد مینے وہ زیورات جو ابو نے شادی سے پہلے گفٹ دے تے واپس کرے، مجھے صحیح یاد نہیں شادی سے پہلے ابو نے بھائی کی شادی پر گفٹ زیورات شعبان میں یا شوال میں دے، شادی کے بعد میں ذوالحجہ میں زکوۃ دیتی تھی پھر احتیاط رمضان کی پہلی کو، پھر احتیاط رجب کی پہلی کو، اب میرے لیے زکواۃ کی ادائیگی کی صحیح تاریخ کیا ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم سلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

آپ کے زکوٰہ کی تاریخ قمری مہینوں کے لحاظ سے اب بھی وہی ہے جس تاریخ کو آپ پہلی بار صاحب نصاب بنی تھیں یعنی شعبان کی وہ تاریخ جس میں آپ کو سونا وغیرہ ملا۔ لہذا اسی تاریخ کو زکوۃ دیا کریں۔ اگر صحیح یاد نہ آرہا ہو تو غالب گمان سے تاریخ مقرر کرلیں اور اس تاریخ کو زکوٰۃ ادا کیا کریں۔

=================

﴿الفتاویٰ الھندیہ، الباب الاول في تفسيرها وصفتها وشرايطها ﴾

“فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ وَتَجِبُ عَلَى الْفَوْرِ عِنْدَ تَمَامِ الْحَوْلِ حَتَّى يَأْثَمَ بِتَأْخِيرِهِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ، وَفِي رِوَايَةِ الرَّازِيّ عَلَى التَّرَاخِي حَتَّى يَأْثَمَ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ كَذَا فِي التَّهْذِيبِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(وَمِنْهَا حَوَلَانُ الْحَوْلِ عَلَى الْمَالِ) الْعِبْرَةُ فِي الزَّكَاةِ لِلْحَوْلِ الْقَمَرِيِّ كَذَا فِي الْقُنْيَةِ، وَإِذَا كَانَ النِّصَابُ كَامِلًا فِي طَرَفَيْ الْحَوْلِ فَنُقْصَانُهُ فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ لَا يُسْقِطُ الزَّكَاةَ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ.”

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

قمری تاریخ:8 رجب،1442ھ

شمسی تاریخ:20 فروری،2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں