زکوۃ کی عدم ادائیگی میں وکیل کی ضمان کا حکم

 زید کی والدہ کو ان کی جاننے والی مخیر خاتون نے 2 لاکھ روپے زکوٰۃ کی مد میں دئیےتاکہ ڈیڈھ لاکھ کا راشن خرید کر ضرورت مند احباب تک پہنچایا جاسکےاور 50 ہزار نقدی کی صورت میں دئیے جائیںزید کی والدہ نے ڈیڑھ لاکھ کا راشن بانٹ دیااور زید کو بھیجا کہ بینک سے 50 ہزار کیش نکلواکر لے آئو تاکہ بانٹ دیا جائےلیکن زید نے وہ رقم بینک سے نکلواکر والدہ سے یہ کہاکہ مطلوبہ رقم مجھ سے گن پوائنٹ پر چھین لی گئی ہےاب کیا مخیر خاتون کی زکوٰۃ ادا ہوگئی زید کی والدہ صاحبِ حیثیت نہیں ہیں تو اب وہ رقم ادا کرنے کی پابند ہے یا نہیں؟ 

سائلہ بنت ارشد 

الجواب باسم ملھم الصواب

مذکورہ مسئلہ میں تفصیل ہے مخیر خاتون کی زکوۃ جو راشن کی مد میں دی گئی وہ تو ادا ہو گئی، مگر جو رقم نقدی کی صورت میں دینی تھی(50،000) اس میں زکوةادا نہیں ہوئی ؛ کیونکہ وہ مستحق تک نہیں پہنچی ،حالانکہ زکوۃ کے ادا ہونے میں تملیک شرط ہے اور اسی پر اجماع ہے، جبکہ یہاں یہ شرط موجود نہیں ہے اور زید کی والدہ اس رقم کو واپس کرنے کی ضامن نہ ہوگی اگر اس نے مال کی حفاظت میں غفلت نہ برتی ہو ۔( احسن الفتاوی 4/299)

کما فی الھدایہ :

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: يا بني هاشم ان الله حرم عليكم غسالة الناس واوساخهم وعوضكم منها بخمس الخمس

زوجہ ارشد 

9 جمادی الاولی 1438 

6 فروری 2017 

صفہ آن لائن کورسز

اپنا تبصرہ بھیجیں