زکوٰۃ کی رقم سے مدرسے کے طلباء کو کورس خرید کر دینے کا حکم 

فتویٰ نمبر:2010

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

کیا زکوٰۃ کی رقم سے مدارس کے طلباء میں کورس کی کتب تقسیم کی جاسکتی ہیں جبکہ معلوم نہ ہو کہ وہ صاحب نصاب ہیں یا نہیں؟

والسلام

الجواب حامداً و مصليا

سوال کا جواب جاننے سے پہلے تمہیدا یہ بات عرض ہے کہ زکوٰۃ کے جو مصارف قرآن میں بتائے گئے ہیں ان میں مستحق کو زکوٰۃ کا مالک بناکر دینا شرط ہے۔یعنی جو چیز زکوٰۃ میں دی جارہی ہے وہ مستحق کی ملکیت میں دی جائے۔اسی پر آئمہ اربعہ اور جمہور فقہائے کرام کا اتفاق ہے۔

اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَة قُلُوْبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاِبْنِ السَّبِیْل(توبہ:۶۰)

و یشترط ان یکون الصرف تملیکا لا اباحۃ(در المختار ۳۴۴/۲)

تمہید کے بعد اب عرض ہے کہ مدارس کے وہ طلبا جو مستحق نہیں، مال دار ہیں یا صاحب نصاب ہیں یا مال دار لوگوں کی نابالغ اولاد ہیں ان کو زکوٰۃ کا مال دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔اسی طرح وہ طلبا جو سید ہیں ان کو بھی زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔

ولا یجوز دفعہا الی ولد الغنی الصغیر ( ہندیۃ: کتاب الزکاۃباب المصرف ۱۸۹/۱ ،کوئٹہ )

ولا تدفع الی بنی ہاشم لقولہ ﷺ یا بنی ہاشم ان اللہ حرم علیکم غسالۃ الناس واوساخہم (الہدایہ: ۲۲۳/۱)

لیکن وہ طلبا جو مستحق ہیں (صاحب نصاب نہیں) ان کو زکوۃ مالک بناکر دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے۔

البتہ تملیک کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں:

۱)واضح صورت یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مستحق طالب علم کے حوالے کردیں وہ اپنی مرضی سے اپنی ضروریات میں خرچ کرے۔

۲)زکوٰۃ کی رقم سے کوئی چیز خرید لیں اور مستحق کی ملک میں دے دیں، مثلاً : کپڑے،دوائی وغیرہ، کورس کی کتابیں بھی اس میں شامل ہیں۔ اس سے بھی زکوۃ ادا ہوجائے گی جبکہ مالک بناکر دی جائیں۔ عاریتا نہ دی جائیں ۔

۳)مستحق طلبا کو کھانا کھلانے سے بھی زکوۃ ادا ہو جائے گی بشرطیکہ کھانا اپنے ہاتھ سے اس کو دے دے اس کو اپنے ساتھ ملا کر نہ کھائے۔

اذا کان یعول یتیماً و یجعل ما یکسوہ و یطعمہ من الزکوٰۃ مالہ ففی الکسوۃ لا شک فی الجواز لوجود الرکن وھو التملیک،واما الطعام فما یدفعہ الیہ بیدہ یجوز ایضاً لما قلنا بخلاف ما یأ کلہ بلا دفعٍ الیہ(رد المحتار: ۱۷۲/۳ زکریا)

اگر یہ معلوم نہ ہو کہ کون مستحق ہے کون نہیں۔تو اس کا حل یہ  کہ مدرسے کی انتظامیہ کو یہ زکوٰة کی رقم یا کتابیں دے دیں۔ ان کے پاس اس کا مکمل ریکارڈ ہوتا ہے۔فقط

و اللہ اعلم بالصواب

قمری تاریخ:۱۴۴۰/۳/۱۳ھ

عیسوی تاریخ:۲۰۱۸/۱۱/۲۲ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں