قرآن کیاکہتا ہے ؟
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ترجمہ: خشکی ، بیا بانوں اور سمندروں میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے بعض اعمال کا بدلہ دیں تاکہ یہ لوگ اللہ کی طرف رجوع کرلیں ۔ ( سورۃ روم)
قرآن کریم ہمیں ایک ا صول بتاتا ہے کہ مصیبتوں اور تکالیف کی وجہ انسان کے اعمال اللہ تعالیٰ کی مرضٰ اور منشاء کے خلاف ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انسان کو طرح طرح کی مصیبتوں اور تکلایف میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ پھر مالی پریشانیاں بھی آتی ہیں ۔ جسمان تکالیف بھی آتی ہیں اور دیگر مصیبتوں کا دروازہ بھی کھل جاتاہے ۔ یہاں تک کہ انسان کا امن وسکون برباد ہوجاتا ہے ۔ انسان کے بد اعمالیوں کے نتیجے میں کبھی تو اللہ تعالیٰ کسی ظالم کو ہی ان پر مسلط کرلیتا ہے جو ان کا سکون چھین لیتا ہے اور کبھی خداوند تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھا کر طوفانوں ، دریاؤں ، طغیانیوں اور زلزلوں کے ذریعے سے انسان کو اس کے کیے کا بدلہ دیتے ہیں۔ چند دن پہلے پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھی زلزلے نے تباہی مچادی ۔ کئی گھر کھنڈر بن گئے ۔ بچوں کے سروں سے ان کا سہارا اٹھ گیا۔ ہمارے لیے اس میں متنبہ ہونے کاسامان اور عبرت کا مقام ہے ۔ کاش ! ہم سمجھ جائیں ۔ فاعتبروا یااولی الابصار
اسباب و محرکات : زلزلے کی حقیقت اور اس کے اسباب کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک عرصے کے بعد زمین کی پلیٹیں تبدیل ہوتی ہیں ۔ جب زمین کی پلیٹیں تبدیل ہوتی ہیں تو اس سے پیدا ہونے والی کشمکش کو زلزلے سے تعبیر کیاجاتاہے ۔ چونکہ یہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ۔ لہذا سائنسدانوں کی بات کو ہم حرف آخر سمجھ کر اسے مان لیتے ہیں لیکن یہ غور نہیں کرتے کہ اگر ان کا نظریہ مان بھی لیاجائے تب بھی زمین کی پلیٹیں تبدیل کرنے والا کوئی ہوگا ضرور ۔ ظاہر ہے اتنا بڑا کام خود بخود تو نہیں ہوسکتا اور ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑ امہربان ، نہایت رحم کرنے والا ہے لہذا یہ بات اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم کے خلاف ہے کہ وہ بغیر کسی وجہ کے اپنے بندوں کو عذاب دے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ویسا ہی معاملہ کرتے ہیں جیسے بندوں کے اعمال ہوتے ہیں ۔ یعنی زلزلہ کی اصل وجہ اور حقیقت خود انسان ہے۔
خدشات کا ازالہ: انسان زلزلے سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے اچھی بات ہے۔ حکومتیں سیلاب اور زلزلے کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کی سر توڑ کوششیں کریں۔، عوام ایسے اقدامات کو کو سر آنکھوں پر رکھیں گے لیکن خدارا ! حقائق سے آنکھیں نہ چرائی جائیں ۔ امریکہ اور جاپان کی مثالیں دی جارہی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جارہا کہ عمارتیں جتنی مضبوط بنالی جائیں قدرتی آفات ان عمارتوں کو پھر بھی تباہ کرسکتی ہیں ۔ سونامی کو جاپان نہیں روک پایا ۔ تباہ کن ہواؤں کو امریکہ قابو نہ کرپایا۔ عمارتیں جتنی زلزلہ پروف بنالی جائیں زلزلے کے خوف اور اس کے نقصانات سےا نسان خود کو بچا نہیں پائے گا ۔ اسلام آبا د، کراچی اور دیگر کئی علاقوں کے ارے میں کہاجاتاہے کہ یہ فالٹ لائنز کے بالکل اوپر ہیں لیکن یہاں زلزلے بہت معمولی سطح کے آئے ہیں ۔ آخر کیوں ؟
گنجان علاقے اور شہری آبادی عموماً زلزلے سے محفوظ رہتے ہیں ۔ اس میں بھی کوئی خدائی مصلحت ہوسکتی ہے ۔ شہروں میں موجود نیک لوگ یا پھر وہاں موجود انسانی جانوں کی کثرت ! قاعدہ ہے کہ چھوٹوں کو اپنے بڑوں کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے ۔
حدیث کی روشنی : حدیث کی رو سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ زلزلے کی جہ انسانوں کی بد اعمالیاں اور گناہ ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب مال غنیمت دولت سمیٹنے ک اذریعہ بن جائے ، امانت کو غنیمت سمجھاجائے اور زکوٰۃ کو بوجھ سمجھاجائے دین کا علم دنیوی مقصد کے تحت حاصل کیاجائے ، آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔دوست سے قربت بڑھائی جائے اور باپ سے دوری اختیار کی جائے ۔مساجد میں شور وغل بلند ہونے لگے اور معاشرے کا درسار بنے ، کسی کے شر سے بچنے کے لیے اس کی عزت کی جائے ۔اداکارائیں اور موسیقی کے آلات عام ہوجائیں ۔ شراب سر عام پی جانے لگے ۔ اس امت کے بعد والے لوگ پہلے والوں کو برا بھلا کہیں تو پھر انتظار کرو تندوتیز ہواؤں کا، زمین میں زلزلوں کا ، زمین میں دھنسے جانے کا، بندروخنزیر بنائے جانے کا اور آسمان سے پتھر برسنے کا اور یکے بعد دیگر ے آنے والی ایسی نشانیوں کا جو تسبیح کی لڑی ٹوٹنے کے بعد تسبیح کے دانوں کے گرنے کی طرح پے در پے آئیں گی۔”
ایک اور حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں : جب شادی شدہ عورتیں بہک جائیں ، جب لوگ زنا کو حلال سمجھنے لگیں ، شراب پیے اور گانوں کی محفلیں سجنے لگیں تو اللہ تعالیٰ کو آسمان میں غیرت آتی ہے وہ زمین کو حکم دیتا ہے زمین میں زلزلے آنے لگتے ہیں ۔”
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ” جب لوگ پانچ قسم کی برائیاں کرنے لگتے ہیں تو ان کو پانچ طرح کے مصائب میں مبتلا کیاجاتاہے ۔ جب سود عام ہوگا تو زلزلے اور زمین میں دھنسنا عام ہوجائے گا ۔ جب اہل اقتدار ظلم کرنے لگیں گے تو بارشیں بند ہوجائیں گی ، جب زنا عام ہوجائے گا تو لوگ جلدی مریں گے ۔ جب لوگ زکوٰۃ دینے سے رک جائیں تو مویشی مرنے لگیں گے اور جب غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت نہ ہوگی تو وہ مسلمانوں پر غالب آجائیں گے ۔”
لائحہ عمل : جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلے کی اصل وجہ لوگوں کی بد اعمالیاں ہیں۔ لہذا ایسے وقت میں بلڈنگ کوڈز تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ نماز، توبہ واستغفار اور صدقہ خیرات کی اشد ضرورت ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب لوگ اجتماعی طور پر گناہ کرنے لگتے ہیں تو اللہ کے حکم سے زمین میں زلزلے آنے لگتے ہیں پھر اگر یہ لوگ توبہ اور استغفار کرلیں تو زمین تھم جاتی ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ ان کے گھروں کو منہدم کردیتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں زلزلہ آیا تو جمعہ پر تشریف لائے اور لوگوں کو صدقہ خٰرات اور توبہ استغفار کرنے کا حکم دیا ۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب زلزلہ آیا س تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوئے ۔
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں مدینہ میں زلزلہ آیا تو آپ ﷺ نےصحابہ کو توبہ واستغفار کرنے کا حکم دیا ۔
ایک صحافی کا تجزیہ :
انصار عباسی صاحب نے تجزیہ پیش کیا ہے کہ ” کوئی شک نہیں کہ موسم تبدیل ہورہے ہیں ، گلیشئیرز پگھل رہے رہے ہیں لیکن تھوڑا اس بات پر بھی غور کر لیں کہ کس کے حکم سے یہ سب کچھ ہوتا ہے ۔ کون فالٹ لائنز کو فعال اور غیر فعال کرتاہے ۔ کون بادلوں کو رحمت اور جب چاہے عذاب میں بدل دیتا ہے ۔ اگر ساری اہمیت ہی سائنس دانوں کو دیتے ہیں تو سب کو بلا کر کہہ دو کہ فالٹ لاینز کو ٹھیک کردیں اور ٹیکونک پلیٹس کو بھی ٹکرانے سے بچانے کی تدبیر کردیں ۔ اس سے کیا زلزلہ رک جائے گا؟ اللہ کا تو وعدہ ہے کہ جب قیامت آئے گی تو ایسا زلزلہ آئے گا کہ سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے گا ۔ مضبوط بلڈنگز بنانے کے لیے میڈیا حکومت اور لوگوں ہر ضرور زور دے لیکن آخرت کی تیاری کا بھی سبق دو۔”
ایک شبہ کا جواب : بعض لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ قدرتی آفات سے معصوم اور بے گناہ لوگ بھی کثرت سے مرتےہیں ۔ ان کا کیا قصور ہے۔ ان پر عذاب کیوں؟ اس کا جواب مستدرک حاکم کی ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ام المومنین سے پوچھا کہ اس کا مقصد زمین والوں کو سزا دینا ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے جواب کہ مومنین اس کا مقصد کے لیے یہ رحمت ہے جبکہ گناہ گاروں کے لیے یہ اللہ کا عذاب اور ان پر پھٹکار ہے ۔