زیور کسی اور کے نام کرنے سے زکوة کی ادائیگی کا حکم

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی کے پاس اتنا زیور ہو جسکی زکوۃ نکلتی ہو پھر وہ اپنا زیور اپنے بیٹے وسیم(جوکہ نابالغ ہے ) کی بیوی کےنام کردے جبکہ بیٹے کا کوئی رشتہ ہی نہیں ہوا ہے.

سوال یہ ہے کہ اس صورت میں زکوۃ ساقط ہو گی کیا ؟

الجواب باسم ملهم الصواب

وعلیکم السلام و رحمة الله!

شرعی طور پر محض زیور کسی کے نام کردینے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی ،بلکہ مالک بنانے کے لیے اس کا قبضہ دینا لازم ہے اور نابالغ ہونے کی صورت میں ولی (یعنی اس کے والد ، والد نہ ہونے کی صورت میں اس کے  وصی، پھر دادا،اور  پھر اس کے وصی)  کا قبضہ ضروری ہے۔ مذکورہ صورت میں جب وہ عورت ہی متعین نہیں، جس کے نام زیور کیا ہے یعنی نابالغ بیٹے کی بیوی تو پھر ہبہ(گفٹ) مکمل ہی نہیں ہوا۔ لہذا یہ زیور بدستور سائلہ کی ملکیت میں ہی ہے،جس کی کی زکوۃ سال مکمل ہونے پر ادا کرنی ہوگی۔

============

حوالاجات:

1)“لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار‘‘. (فتاوی عالمگیری، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،،378/4ط: رشیدیہ)

2)” الموهوب له إن كان من أهل القبض فحق القبض إليه، وإن كان الموهوب له صغيرا أو مجنونا فحق القبض إلى وليه، ووليه أبوه أو وصي أبيه ثم جده ثموصي وصيه ثم القاضي ومن نصبه القاضي، سواء كان الصغير في عيال واحد منهم أو لم يكن، كذا في شرح الطحاوي” .

(فتاویٰ عالمگیری، الباب السادس فی الھبۃ للصغیر، 392/4,ط؛ رشیدیہ)

3)“نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم كل عشرة) دراهم (وزن سبعة مثاقيل)”(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، رد المحتار، 2/ 295)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

بقلم:

قمری تاریخ: 17 ربیع الاولی 1443ھ

عیسوی تاریخ: 24 اکتوبر 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں