اگرایک شخص اپنی بیٹی اپنی بہن کوپرورش کیلئےدیدےتواس لڑکی کابہن کےشوہرسےکیارشتہ ہوگا

فتویٰ نمبر:391

سوال:محترم مفتی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

   بعددعاءسلام  عرض یہ تھی کہ ایک شخص  اپنی بیٹی اپنی بہن کوپرورش کیلئےدیدیتےہیں  پھروہ لڑکی بڑی ہوتی ہے ا ورشادی بھی ہوجاتی ہےتوصورت مذکورہ میں یہ پوچھناہےکہ اس لڑکی  کااس عورت (جس نےپالاہے) کےشوہرسےکیارشتہ ہے؟حالانکہ اس لڑکی نےعورت کادودھ بھی نہیں پیا؟ لہذا اس کا جواب دےکرممنون فرمائیں؟

الجواب حامدا ومصلیا
واضح رہےکہ محض کسی بچہ کی پرورش کرنےیااسکوگود لینےسےشریعت کےاحکام نہیں بدلاکرتے،(۱)اس بچہ یابچی کاحسب نسب تمام کاتمام اس کےاپنےسگےوالدین ہی سے وابستہ رہتاہے قرآن حکیم میں سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر۵،۴میں اللہ جل شانہ نےیہی حکم واشگاف الفاظ میں بیان فرمایاہے

لہذاصورتِ مسئولہ میں جس شخص نےاپنی بیٹی اپنی بہن کوپرورش کیلئےدی ہےتووہ بیٹی اس  شخص کی بہن یعنی اپنی پھوپھی کےشوہریعنی پھوپھاکیلئےشرعاًمحرم نہیں ہےچونکہ اس لڑکی نےاپنی پھوپھی کا دودھ بھی نہیں پیاہےاس لئےان کےدرمیان رشتہ رضاعت بھی قائم نہیں ہوا لہذاا س لڑکی پراپنےپھوپھاسےشرعاًپردہ کرناواجب ہےاورایک دوسرےکے سامنےآناجائزنہیں ہے

التخريج

(۱) قرآن کریم میں ہے:

{ مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (5)}[الأحزاب: 4  5]

الموسوعة الفقهية الكويتية – (10 / 120)

 وَالاِسْتِلْحَاقُ يَخْتَصُّ بِالأَْبِ وَحْدَهُ ،وَهُوَ الإِْقْرَارُ بِالنَّسَبِ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ ، وَلاَ يَقَعُ الاِسْتِلْحَاقُ إِلاَّ عَلَى مَجْهُول النَّسَبِ ، فَالاِسْتِلْحَاقُ لاَ يَكُونُ إِلاَّ بِالنِّسْبَةِ لِمَجْهُول النَّسَبِ ، فِي حِينِ أَنَّ التَّبَنِّيَ يَكُونُ بِالنِّسْبَةِ لِكُلٍّ مِنْ مَجْهُول النَّسَبِ وَمَعْلُومِ النَّسَبِ،وَتَفْصِيل ذَلِكَ فِي مُصْطَلَحِ:(اسْتِلْحَاقٌ)………وَفِي اصْطِلاَحِ الْفُقَهَاءِ:يُطْلَقُ الاِبْنُ عَلَى الاِبْنِ الصُّلْبِيِّ مِنْ نَسَبٍ حَقِيقِيٍّ،فَتَكُونُ الْبُنُوَّةُ مِنْ نَسَبٍ أَصْلِيٍّ،وَيُطْلَقُ الاِبْنُ عَلَى ابْنِ الاِبْنِ وَإِنْ نَزَل مَجَازًا.فَالْفَرْقُ بَيْنَ الْبُنُوَّةِ وَالتَّبَنِّي:أَنَّ الْبُنُوَّةَ تَرْجِعُ إِلَى النَّسَبِ الأَْصْلِيِّ ،أَمَّا التَّبَنِّي فَهُوَ ادِّعَاءُ الرَّجُل أَوِ الْمَرْأَةِ مَنْ لَيْسَ وَلَدًا لَهُمَا.وَتَفْصِيل ذَلِكَ فِي مُصْطَلَحِ 🙁 بُنُوَّةٌ ).

اپنا تبصرہ بھیجیں