آبادی میں اضافہ

بچے کم ہی اچھے یہ سلوگن آج کل زبان زد عام ہورہا ہے۔ آئیے شرعی نقطہ نظر سے اس کا جائزہ لیتے ہیں:

1۔جس طرح جانوروں کی آبادی میں  اضافے سے وسائل کو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ ان کے وسائل قدرت کی طرف سے مہیا ہوجاتے ہیں اسی طرح  انسانوں کی آبادی میں اضافے سے وسائل کو نقصان پہنچنے کا خطرہ نہیں۔ جتنے انسان پیدا ہورہے ہیں قدرت کی طرف سے اتنے ہی وسائل بھی مہیا ہیں۔

                    ومامن دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا (ہود، آیت نمبر6)

                    زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو!

              وان من شیی الاعندنا خزائنہ، وماننزلہ الا بقدرمعلوم (الحجر،آیت21)

               کوئی چیز ایسی نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں اور ہم اسے مخصوص اندازے سے ہی اتارتے ہیں۔

اس لیے ضرورت یہ نہیں کہ آبادی کم کی جائے بلکہ ضرورت اس  کی ہے کہ وسائل  کی تقسیم منصفانہ طریقے سے کی جائے! وسائل زیادہ سے زیادہ پیدا کیے جائیں ، وسائل محفوظ کیے جائیں اورلوگوں کو روزگارکے مواقع فراہم کیے جائیں!

بات صرف یہ ہے کہ یہ وسائل چند بڑے ہاتھوں میں گردش کررہے ہیں، اگر یہ وسائل منصفانہ طور پر  تقسیم ہوں تو آبادی میں اضافے سے کسی طرح کا خطرہ وابستہ نہیں۔

2۔ آبادی کم کرنے کا ایک نقصان یہ ہے کہ بوڑھے لوگ بڑھ جاتے ہیں اور نوجوانوں کی کمی ہوجاتی ہے، کیونکہ شرح پیدائش کم ہونے کی وجہ سے نوجوان نسل مہیا نہیں ہوتی۔

3۔ ضبط ولادت کی تحریک کا ایک نقصان جنسی جرائم میں اضافہ ہے۔ اکثرلوگ شادی کے بندھن میں اولاد کے حصول کی خاطر جڑتے ہیں، جب  اولاد کی خواہش ہی نہ رہے گی  تو لوگ شادی کی ضرورت  کیوں محسوس  کریں گے ، پھر یقیناوہ اپنی ہوس

ناجائز طریقوں سے ہی پوری کریں گے۔

آبادی کی تحدید جمعہ کےقیام کے لیے:

جمعہ کے جواز کے لیے فقہائے احناف نے  شہر یا بڑے گاؤں کی شرط لگائی ہے اور شہر اور قریہ کبیرہ کی تعریف یہ کی ہے کہ جس میں شہری ضروریات مہیا ہوں شہر کی تمام ضروریات نہ ہوں شہریت کا امکان  ہو تو بھی اسے شہر قراردے دیا جائے گا عرف زمانہ اور تمدن کو بھی اس میں دخل ہے۔

اب اس میں آبادی کی کوئی  خاص تحدید ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے کچھ اقوال ملاحظہ فرمائیے:

1۔ ایک ہزار کی آبادی شہر ہے۔  (جامع الرموز )

2۔ ڈیڑھ ہزار کی آبادی شہر ہے۔ (فتاوی فریدیہ:ص171، جمعہ)

3۔ آج کل  دوہزار کی آبادی میں شہری ضروریات ہوتی ہیں۔(محمودیہ:8/64)

4۔ تین چار ہزار کی آبادی شہر ہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند:5/129)

5۔چار ہزار کی آبادی شہر ہے۔ (الکوکب الدری:1/199)

6۔ شہریت کی علامات  پائی جائیں تو بارہ تیرہ سو کی آبادی بھی شہر ہے۔ (حاشیہ فتاوی دارالعلوم دیوبند:5/101)

آبادی ایک ہونے کا معیار:

            آبادی متصل ہونے کے چارمعیار ہیں:

حکومت دوآبادیوں کو ایک قرار دیدے ، جیسے: منی اور مکہ کو سعودی حکومت نے ایک قرار دیا ہے۔

عرف عام میں دونوں آبادیوں کو ایک سمجھا جائے ، جیسے: نیوکراچی کو کراچی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

دیکھنے میں دونوں آبادیاں ایک لگیں۔

ان باتوں میں سے کوئی بات نہ پائی جائے تو ایک غلوہ (137،16میٹر، جو تقریبا تین سو قدم بنتے ہیں) اتصال وانفصال کا معیار ہے (احسن الفتاوی: 4/74 فتاوی دارالعلوم زکریا: 2/499،500)

(یعنی 300 قدم  کے اندر دونوں آبادیاں ملی ہوئی ہوں تو ایک آبادی شمار ہوگی اور اگر300 قدم سے زیادہ فاصلہ ہو تو مختلف آبادیاں شمار ہوں گی)۔

اپنا تبصرہ بھیجیں