حج اسباق
خواتین کا حج
تحریر: (مفتی)محمدانس عبدالرحیم
عورتیں بھی مردوں کی طرح حج کریں۔البتہ عورتوں کے حج کے حوالے سے کچھ اہم مسائل ہیں جن کو ذکر کرنا ضروری ہے:
(1) عورت محرم کے بغیر حج نہیں کرسکتی ۔
قدیم تحقیق اور فتوی یہی ہے تاہم موجودہ پرامن حالات میں جبکہ ہوائی جہاز کا سفر کچھ ہی گھنٹوں کاہوتاہے اور سیکورٹی بھی سخت ہوتی ہے بعض مستنداہل علم نے یہ تحقیق جاری کی ہے:
” راوالپنڈی ، اسلام آباد کے چیدہ مفتیان کرام واہل علم حضرات پر مشتمل ” المجلس العلمی ” کے نام سے ایک مجلس قائم ہے جس میں جدید اور اہم فقہی مسائل پر غور وفکر کر کے فیصلہ کیاجاتا ہے اس مجلس میں آج کل شدید ضرورت کے پیش نظر محرم کے بغیرعورت کوسفر کرنے کے حکم پر غور وفکر ہو ااس مجلس نے جو فیصلہ کیا وہ ذیل میں تحریر کیا جارہا ہے ۔
آج مورخہ 4/ ربیع الاول 1437 ھ بمطابق 16 دسمبر 2016 ء بروز بدھ کو ادارہ غفران میں ”المجلس العلمی ” کا اجلاس ہوا۔
اجلاس میں عورت کے محرم کے بغیر سفر کے حکم اور موجودہ دور میں اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات پر غورکیاگیا ۔غوروخوض اور بحث وتمحیص کے بعد یہ طے پایا گیا کہ عام حالات میں تو عورت کو اس کی پابندی کرنی چاہیے کہ وہ مسافت قصروالا سفر محرم کے بغیر نہ کرے البتہ اگر کہیں شدید ضرورت ہو اور محرم میسر نہ ہو یا محرم تو موجود ہو لیکن اس کے ساتھ کسی مجبوری کی وجہ سے سفر نہ کرسکے تو عورت کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ محرم کے بغیر بھی سفر کرنے کی گنجائش ہے ۔
• راستہ پر امن ہو ۔
• عورت شرعی پردہ کا اہتمام کرے ۔
• نہ عورت کی طرف سے فتنہ کا خطرہ ہو اور نہ دوسری جانب سے۔
• کسی غیر محرم کے ساتھ خلوت لازم نہ آئے بلکہ سفر اجتماعی قافلے کی شکل میں ہو یا کوئی ذمہ دار خاتون ساتھ ہو ۔
• اور اگر فتنے کا اندیشہ ہو توعورت کے لیے مسافت سفر سے کم کا سفر بھی جائز نہیں ۔
اجلاس میں مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت کی :
• مفتی محمد رضوان صاحب
• مفتی دوست محمد مزاری
• مفتی احسان الحق صاحب
•مفتی شکیل احمد صاحب
مفتی محمد رضوان صاحب مد ظلہ ( ادارہ غفران راوالپنڈی ) کے زیر نگرانی ” المجلس العلمی ” نے حال ہی میں اس کے جواز کا فتویٰ دیاہے جو ان کے ماہنامہ رسالہ التبلیغ بابت ماہ مارچ 2016ء صفحہ 69 پر شائع ہوا ہے
“عام حالات میں عورت کے لیے بلا محرم سفر شرعی (24ء77 کلو میٹر ) کی مقدار سفر کرنا جائز نہیں، البتہ بوقت ضرورت جبکہ کوئی محرم ساتھ جانے کے لیے میسر نہ ہو ایسے سفر کی گنجائش ہے جس میں رات گزارنے کی نوبت نہ آئے اور نہ ہی کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اس طور پر کہ نیک عورتیں ساتھ ہوں یا کم از کم ساتھ والی سیٹ پر کوئی مرد نہ ہو اور جاتے وقت کوئی محرم اسٹیشن یا اڈے تک ساتھ جائے اور جہاں جانا ہو وہاں بھی محرم لینے کے لیے آئے ۔”
بعض اہل علم نے یہ فتوی جاری تو کردیا ہے لیکن یہ بالکل نئی بات ہے ،ابھی تک سفر حج میں بوڑھی عورت کے علاوہ کسی معتبر دارالافتاء نے عام سفر کی اجازت میری معلومات کے مطابق نہیں دی،اس لیے مطلق اجازت کا عمومی فتوی خلاف احتیاط ہے۔البتہ انفرادی طور پر اگر شدید مجبوری ہو اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو شرائط کے ساتھ اجازت دی جاسکتی ہے۔
ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ حج کے سفر کے لیے صرف بوڑھی عورت مسلک شافعی پر عمل کرسکتی ہے یعنی دو ثقہ خواتین ساتھ ہوں تو حج کے لیے جاسکتی ہے۔لیکن عمرہ اور دیگر سفر کے لیےاس پر عمل نہیں کرسکتی۔
(2) کچھ خواتین سمجھتی ہیں کہ مینسز کی حالت میں احرام ہی نہیں باندھ سکتے یا احرام کا غسل نہیں کرسکتے، یہ غلط فہمی ہے،صحیح مسئلہ یہ ہے کہ احرام کی حالت میں میقات سے گزرنا جیسے مردوں اور پاک عورتوں کے لیےواجب ہے شرعی معذور کے لیے بھی واجب ہے۔
(3) اسی طرح احرام کا غسل جس طرح پاک عورتوں کے لیے مستحب ہے، شرعی معذورکے لیےبھی مستحب ہے۔
(4) اگر غلط فہمی کی بنا پر کوئی خاتون بغیر احرام کے میقات سے گزرگئی تواگر ابھی تک اس نے حج یا عمرے کے افعال شروع نہیں کیے تو اسے چاہیے کہ دوبارہ جدہ یا کسی اور میقات سے آئے،اس طرح دم ساقط ہوجائے گا،نہیں تو اس پر دم لازم ہوگا اور گناہ بھی ہوگا۔
(5) احرام باندھ کر مکہ گئی لیکن عمرے کے طواف سے پہلے ہی مینسز آگئے یہاں تک کہ مدینہ جانے کا وقت آگیا تواس صورت حال میں اسے چاہیےکہ اسی احرام کے ساتھ مدینہ چلی جائے اور اسی احرام کے ساتھ واپس آئےاور اسی سے عمرہ ادا کرے۔دوسرا احرام باندھنا جائز نہیں،اگر دوسرا احرام باندھ لیا تو اس چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے تین بڑی تبدیلیاں ہوں گی:
ایک تو یہ احرام پردوسرااحرام باندھنےکی جنایت ہے جس کی وجہ سےایک بکری واجب ہوگی ۔
دوسرا اس پر واجب ہوگا کہ اس نے یہ جو دوسرا احرام مدینے سے باندھا ہے اسے چھوڑدے اور اس کا دم (بکری)بھی دے۔
تیسرے،جودوسرا احرام اس نے باندھا تھا اس کی وجہ سے عمرہ اس پر واجب ہوگیا تھا اس کی قضا موجودہ عمرے سے فارغ ہونے کے بعد کرے۔
خلاصہ یہ کہ دو دم بھی واجب ہوں گے اور ایک عمرے کی قضا بھی واجب ہوگی۔
(6) عورتوں کے لیےحالت احرام میں سلے ہوئے کپڑے،موزے،دستانے،بند جوتاوغیرہ پہننے کی اجازت ہے ۔ مردوں کو نہیں۔
(7) عورتوں کے لیےحالت احرام میں سر ڈھانکنا ضروری ہے جبکہ مردوں کے لیے یہ جائز نہیں۔
(8) احرام کی حالت میں بھی جوان عورتوں کے لیے چہرے کا پردہ واجب ہے اور بزرگ عورتوں کے لیے مستحب ۔ (بشرطیکہ نقاب چہرے سے نہ لگے)جبکہ مردوں کے لیے چہرہ ڈھانکنا ممنوع ہے۔
(9) غیر محرم کی موجودگی میں عورتوں کو تلبیہ بلند آواز سے کہنا جائز نہیں۔ جبکہ مردوں کو بلند آواز سے تلبیہ کہنامستحب ہے۔
(10) عورتوں کے لیے طواف میں اضطباع جائز نہیں۔ مردوں کے لیے سنت ہے۔
(11) عورتوں کے لیے طواف میں رمل کرنا جائز نہیں ۔ مردوں کے لیے سنت ہے۔
(12) اگر حجر اسود پر مردوں کی کثرت ہو تو عورت کے لیے اس کا استلام جائز نہیں۔
(13) مقام ابراہیم کے قریب مردوں کی کثرت ہو تو عورتوں کے لیے وہاں طواف کی دو رکعت پڑھنا جائز نہیں۔
(14) عورت کے لیے میلین اخضرین کے درمیان دوڑنا منع ہے ۔ مردوں کے لیے سنت ہے۔
(15) طواف پاکی حالت میں کرلیا لیکن سعی کے وقت ایام آگئے تو اسی حالت میں سعی کرنا درست ہے کوئی گناہ نہیں؛کیونکہ سعی کے لیے طہارت شرط نہیں، طواف کے لیے طہارت شرط ہے۔
(16) حج میں عورتوں کو حلق کروانا جائز نہیں۔ صرف ایک پورے کے برابر عورتیں بال کٹوائیں۔ جبکہ مردوں کے لیے حلق افضل ہے ۔
(17) عورتیں حیض ونفاس کی وجہ سے ایام نحر میں طواف زیارت نہ کرسکیں ایام نحر کے بعدکریں تو تاخیر کی وجہ سے دم لازم نہیں ۔
(18) حیض ونفاس کی وجہ سے عورت کو طواف وداع کا وقت نہ مل سکے اورفلائٹ نکل رہی ہوتوطواف وداع چھوڑنے کی وجہ سے دم لازم نہیں ۔
(19) حیض ونفاس کی وجہ سے عورت کو طواف زیارت کا وقت نہ مل سکے اورفلائٹ نکل رہی ہو،ویزا بڑھ بھی نہ سکتا ہوتوایسی مجبوری میں حیض کی حالت میں طواف زیارت کرلیا جائے اور بطور جنایت بدنہ (گائے یا اونٹ) دم دے ۔
(20) سیلان کی بیماری اتنی کثرت سے ہے کہ شرعی معذور کی تعریف میں داخل ہے تو وضو کرکے طواف کرلے ، کیونکہ یہ شرعی معذور ہے اس لیے اس کے لیے اسی حالت میں نماز، تلاوت، طواف سب جائز ہے۔
(21) اگر حالت ایسی ہے کہ وضو نہیں ٹھہرتالیکن شرعی معذور کی تعریف میں بھی داخل نہیں تو اس طرح کے معذوروں کے لیے گنجائش ہے کہ وہ اسی حالت میں طواف کرلیں ،دم واجب نہیں ہوگا،لیکن فرض اور واجب طواف کریں، نفلی طواف سے گریز ہی کریں۔
🌷دارالافتاء جامعۃ السعید کراچی🌷