درود ناریہ

درود ناریہ ایک ایسا مبارک درود شریف ہے جو ہمارے اکابرین کا مستند اور مجرب وظیفہ رہاہے.
بڑے بڑے بزرگوں نے اسے اپنی کتابوں میں بہت اہمیت اور اھتمام کے ساتھ ذکر کیا ہے.

تمام جائز حاجات کے حصول کیلئے
ھرقسم کی پریشانیوں کےخاتمہ کیلئے
اسی طرح
رشتوں کی بندش
کاروباری بندش
جسمانی امراض
روحانی امراض
مالی پریشانیاں
گھریلو ناچاقیاں
ان سب کے خاتمہ کیلئے
اور پہاڑ جیسے مسائل کو حل کرنے کیلئے
اس درود شریف
کا پڑھنا مجرب المجرب اور بزرگوں کا معمول رہاہے.

علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں 4444 مرتبہ اسکا ورد کرنا یہ اکسیر فی التاثیر ہے.
علامہ دینوری رحمہ اللہ
شیخ محمد تیونسی رحمہ اللہ
اور دیگر کئی اکابرین نے اس درود شریف کو ذکرکرکے اس کے بےشمار فضائل ومناقب بیان فرمائے ہیں.

دارالعلوم دیوبند کے کئ بزرگوں کے معمولات میں یہ شامل رہا ہے

جامعہ بنوری ٹاؤن کے بزرگ اساتذہ کرام کا بھی یہی معمول رہاہے
اور اب بھی سخت حالات
میں اس کا وردکیا جاتاہے.

سلسلہ نقشبندیہ میں یہ درود شریف پابندی سے پڑھا جاتاہے اور اس سلسلہ کے بزرگوں نے اسے اوراد نقشبندیہ میں اھتمام سے ذکر فرمایا ہے.

یہ درود شریف کئی طریقوں اور مختلف الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ آیا ہے

اس میں موجود بعض کلمات دو طرح سے منقول ہیں :
تنحل بہاالعقد وتنفرج بہا الکرب وتقضی
بہاالحوائج وتنال بہا الرغائب
اس صورت میں “ھا” ضمیر لفظ صلاۃ کی طرف لوٹ رہی ہے

اور یوں بھی منقول ہیں :

تنحل بہ العقد وتنفرج بہ الکرب وتقضی
بہ الحوائج وتنال بہ الرغائب

اور اس صورت میں “ہ” ضمیر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کیطرف لوٹ رہی ہے
اور بطور وسیلہ اس طرح پڑھنے میں کوئی حرج نہیں. اور یہ الفاظ شرکیہ ھرگز نہیں
بزرگوں نے اس کی صراحت فرمائی ہے.

لہذا اس درود شریف کو اہل بدعت کا درود کہنابالکل ہی نامناسب ہے

اور اس کو ناریہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ آگ کیطرح سریع التاثیر ہے یعنی جس طرح آگ کا اثر تیز ہوتا ہے اور تیزی کے ساتھ اثر کرتی ہے اسی طرح اس درود شریف کابھی اثر تیز ہے.اور مقاصد و حاجات میں اسکا ورد کرناسریع التأثير ہے

لہذا اسکو پڑھنے والوں کو ناری یعنی آگ والے کہنا یا ناری افعال والا کہنا قطعا مناسب نہیں ہے.

ابوزید

جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں