سیاہ عمامہ پہننے کاحکم

سوال:میں نے کسی عالمہ سے سنا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی بھی کالا لباس نہیں زیب تن کیا، ہاں کالی چادر سرخ دھاریوں والی پہنی تھی اور کالا عمامہ بھی لیکن لباس نہیں۔

جواب : وعلیکم السلام! 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیاہ عمامہ اور سیاہ چادر پہننا ثابت ہے، ایک روایت میں ہے کہ فتح مکہ والے دن جب نبی ﷺ  مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر کالا عمامہ تھا۔

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے سیاہ چادر بنائی تو آپ ﷺ نے اسے زیب تن فرمایا۔۔۔ الخ

تاہم مکمل سیاہ لباس، یعنی تہبند اور اوپر کی چادر یا قمیص اور تہبند دونوں سیاہ ہوں یہ ثابت نہیں ہے۔ 

فی نفسہ کالے رنگ کے کپڑے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  البتہ آج کے دور میں کالا لباس بعض اہلِ باطل کا شعار بن چکا ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ کالے لباس سے جہاں تک ہوسکے احتیاط برتی جائے، (خصوصاً جن دنوں میں وہ کالے لباس کا اہتمام کرتے ہیں ان دنوں میں تو بالکلیہ اجتناب کریں)؛ تاکہ ان کی مشابہت سے بچا جاسکے، کیوں کہ فساق و فجار کی مشابہت اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

سنن الترمذي ت بشار (4/ 416):

” باب ما جاء في الثوب الأسود

حدثنا أحمد بن منيع، قال: حدثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة قال: أخبرني أبي، عن مصعب بن شيبة، عن صفية بنت شيبة، عن عائشة، قالت: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ذات غداة وعليه مرط من شعر أسود.هذا حديث حسن غريب صحيح”.

سنن أبي داود (4/ 54):

“باب في السواد

حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا همام، عن قتادة، عن مطرف، عن عائشة، رضي الله عنها، قالت: ” صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم بردة سوداء، فلبسها، فلما عرق فيها وجد ريح الصوف، فقذفها – قال: وأحسبه قال: – وكان تعجبه الريح الطيبة”. وفي الحدیث جواز لبس السواد، وهو متفق علیه”. (بذل المجهود، باب في السواد، دار البشائر الإسلامیة۱۲/۱۰۱، تحت رقم الحدیث۴۰۷۴، سهارنپور قدیم۵/۵۱)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 755):

“(وندب لبس السواد)

 (قوله: وندب لبس السواد)؛ لأن محمداً ذكر في السير الكبير في باب الغنائم حديثاً يدل على أن لبس السواد مستحب”.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 533):

“وفي التتارخانية: ولاتعذر في لبس السواد، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فتعذر إلى ثلاثة أيام. قال في البحر: وظاهره منعها من السواد تأسفاً على موت زوجها فوق الثلاثة”.  فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں