غیر مسلم سے تجارتی معاملات

سوال: کیا کسی غیرمسلم سے تجارتی معاملات کرنادرست ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب

کفایت المفتی میں ہے: کسی غیر مسلم کو اپنے ساتھ تجارت میں شریک کرناجائز ہے بشرطیکہ مسلمان کا دینی لحاظ سے بھی کوئی نقصان نہ ہو اور مسلمانوں کی طاقت وقوت بھی اس سے متاثر نہ ہوتی ہو اور کاروبار میں شرعی اصولوں کالحاظ رکھا جاتا ہو۔

واضح رہے کہ غیر مسلم سے دوستانہ ، دلی تعلق اور ان کی مذہبی مجالس اور معاملات میں شرکت سے شریعت نے منع کیاہے، باقی تجارتی معاملات دیگر شرعی احکامات کو مدنظر رکھ کر کیے جائیں تو نہ صرف تجارتی معاملات غیر مسلم کے ساتھ جائز ہیں، بلکہ اسلامی اخلاق کے ذریعے ان کی تبلیغ اور اسلام کی طرف راغب کرنے کی بھی تعلیم ہے۔ اور انسانی ہمدردی کا غیر مسلم بھی مستحق ہے۔ (ج ۹، ص۴۱۰)

نیز، نبی کریم ﷺ سے غیر مسلموں کے ساتھ تجارتی معاملات ثابت ہیں۔ حدیث شریف میں آیا:

اشْتَرَى رَسُولُ اللَّه صلى الله عليه وسلم مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا بِنَسِيئَةٍ، وَرَهَنَهُ دِرْعَهُ

ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے کچھ آناج ادھار پر خریدا اور اپنا درعہ رھن کے طور پر رکھا دیا۔ (۱)

اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اھل الذمۃ اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ تجارتی معاملات کے جواز پر مسلمانوں کا اجماع نقل فرمایا۔ (۲)

• (۱) صحيح البخاري برقم (2096) وصحيح مسلم برقم (1603)

• (۲) أجمع المسلمون على جواز معاملة أهل الذمة وغيرهم من الكفار إذا لم يتحقق تحريم ما معه، لكن لا يجوز للمسلم أن يبيع أهل الحرب سلاحاً أو آلة حرب (شرح النووي على صحيح مسلم ، ج ۱۱، ص ۴۰)

فقط۔ واللہ اعلم۔

اپنا تبصرہ بھیجیں