کرایہ پر دیے ہوئے فلیٹ پر زکوٰۃ کاحکم

سوال ۔ میری بہن اپنے سسرال کے گھر میں رہائش پذیر ہیں ان کے پاس ایک چھوٹا فلیٹ ہے جو انہوں نے کرائے پر دیا ہوا ہے اور اس کا کرایہ گھر کے اخراجات میں صرف ہوتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے ایک فلیٹ بک کروایا تھا وہ بڑا ہے اس کا بھی انکو قبضہ مل گیا ہے لیکن ابھی وہاں بجلی گیس وغیرہ نہیں ہے وہ یونہی خالی پڑا ہے وہ انہوں نے رہائش کی نیت سے لیا تھا کیا ان دونوں فلیٹ پر زکوة واجب ہوگی ؟

الجواب باسم ملھم الصواب 

کرائے پر دیے ہوئے فلیٹ پر زکوة نہیں ہے البتہ اگر کرائے سے حاصل ہونے والی رقم دیگر اموال زکوة کے ساتھ مل کر سال پورا ہونے پر نصاب کی مقدار کو پہنچتا ہوتو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی اور دیگر اموال کے ساتھ نصاب کونہیں پہنچتاہو تو زکوةواجب نہیں ہوگی۔ جبکہ دوسرا فلیٹ جو رہائش کی نیت سے خریدا ہے اس پر بھی زکوة واجب نہیں ہوگی کیونکہ یہ شریعت کی نظر میں مال تجارت نہیں ۔

لما فی التاتارخانیۃ: 

” ثم نیۃ التجارۃ لا تعمل ما لم ینضم إلیہ الفعل بالبیع أو الشراء أو السوم فیما یسام “.

( الفتاویٰ التاتارخانیۃ : ۳؍۱۶۶ )

وفی الدر المختار:

” وشرط افتراض أدائہا حولان الحول وہو فی ملکہ أو نیۃ التجارۃ فی العروض”.

(الدر المختار : ۳؍۱۸۶)

وفی الاشباہ والنظائر : 

” وتشترط نیۃ التجارۃ في العروض، ولابد أن تکون مقارنۃ للتجارۃ”.

(الاشباہ والنظائر : ۳۸)

”ولو اشتری الرجل دارا او عبدا للتجارة ثم اٰجرہ یخرج من ان یکون للتجارة لانہ لما اٰجرہ فقد قصد المنفعة ولو اشتری قدورا من صفر یمسکھا او یواجرھا لاتجب فیھا الزکوة “

(فتاوی قاضی خان :١/٢٥١)

”وذلک عن طریق اقامة المبانی او العمارات بقصد الکراء والمصانع المعدة للانتاج ووسائل النقل من طائرات وبواخروسیارات ومزارع الابقار والرواجن وتشترک کلھا فی صفة واحدة ھی انھا لاتجب الزکاة فی عینھا وانما فی ریعھاوغلتھا او ارباحھا “

(الفقہ الاسلامی وادلتہ:١٨٨١ )

”ولیس فی دور السکنی وثیاب البدن واثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمة وصلاح الاستعمال زکوة لانھا مشغولة بالحاجة الاصلیةولیست بنامیة ایضا وعلی ھذا کتب العلم لاھلھا والات المحترفین “

(الھدایہ: ١٨٦ )

اپنا تبصرہ بھیجیں