کیا ٹشو پیپر ڈھیلے کے قائم مقام ہے؟

عنوان:کتاب الطہارۃ
موضوع: ٹشو پیپر ڈھیلے کا قائم مقام

السلام علیکم ورحمۃاللہ اللہ وبرکاتہ!
سوال:
کيا ٹشو ڈھيلے کا قائم مقام ھے؟

الجواب باسم ملہم الصواب

واضح رہے کہ استنجا کرنے کا افضل طریقہ یہ ہے کہ پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد مٹی کے پاک ڈھیلے سے مخرج کو صاف کرکے پانی سے دھو لیا جائے۔ ڈھیلے سے استنجاکا اصل مقصد چونکہ ناپاکی کوپھیلنے سے روکنا ہے۔ یہ بات ٹشو پیپر میں بھی پائی جاتی ہے،لہذا مٹی کے ڈھیلے کی غیر موجودگی میں ٹشو پیپر کو ڈھیلے کی جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
——————————————-
حوالہ جات :

1.عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا ذَهَبَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْغَائِطِ فَلْيَذْهَبْ مَعَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ فَلْيَسْتَطِبْ بِهَا فَإِنَّهَا تَجْزِي عَنْهُ
(سنن النسائی: 44)
ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کو جائے تو اپنے ساتھ تین ڈھیلے لے جائے اور ان سے صفائی کرے، وہ اسے کافی ہوں گے۔‘‘
——————————————-
1.” والاستنجاء بالماء أفضل إن أمكنه ذلك من غير كشف العورة وإن احتاج إلى كشف العورة يستنجي بالحجر ولا يستنجي بالماء. كذا في فتاوى قاضي خان والأفضل أن يجمع بينهما. كذا في التبيين قيل هو سنة في زماننا وقيل على الإطلاق وهو الصحيح وعليه الفتوى. كذا في السراج الوهاج. ثم الاستنجاء بالأحجار إنما يجوز إذا اقتصرت النجاسة على موضع الحدث فأما إذا تعدت موضعها بأن جاوزت الشرج أجمعوا على أن ما جاوز موضع الشرج من النجاسة إذا كانت أكثر من قدر الدرهم يفترض غسلها بالماء ولا يكفيها الإزالة بالأحجار وكذلك إذا أصاب طرف الإحليل من البول أكثر من قدر الدرهم يجب غسله.
(الفتاوی ھندیہ: جلد 1،صفحہ 48)

2.فکان الجمع (بین الحجر والماء) سنۃ علی الإطلاق في کل زمان وہو الصحیح وعلیہ الفتوی۔
(فتاوی شاميہ: جلد 1،صفحہ 550)

3. ثم الجمع بین الماء والحجر أفضل، ویلیہ فی الفضل الاقتصار علی الماء ویلیہ الاقتصار علی الحجر وتحصل السنة بالکل وإن تفات الفضل کما أفادہ في الإمداد وغیرہ
(الفتاوی شامیہ: جلد 1، صفحہ 550)

4.وکذا ورق الکتابۃ لصقالتہ و تقومہ ولہ احترام ایضا۔لکونہ الۃ لکتابۃ العلم ولذا عللہ فی التاتارخانیہ بان تعظیمہ من آداب الدین ومفادہ الحرمۃ بالمکتوب مطلقا واذا کانت العلۃ فی الابیض کونہ آلۃ للکتابۃ کما ذکرنا ویوخذ منھا عدم الکراھیۃ فیما لا یصلح لھا اذا کان قالعا للنجاسۃ غیر منقوم کما قدمناہ۔
(فتاوی شامیہ: جلد 1، صفحہ 340)
———————————————-

1.وہ کاغذ ایسا ہو جو مخصوص طور پر استنجا کرنے کے ہی کام آتا ہے ، لکھنے کے کام میں نہیں آتا۔
(فتاوی محمودیہ: جلد 5،صفحہ 297)

2.جاذب کاغذجو استنجا کے لیے ہی بنایا جاتاہے اس سے استنجا جائز ہے۔
(تسہیل بھشتی زیور: جلد 1،صفحہ 228)

3.1.پانی، مٹی کا ڈھیلا، پتھر، بے قیمت کپڑا اور وہ تمام چیزیں جو پاک ہوں اور نجاست کو دور کریں بشرطیہ مال محترم نہ ہوں ان سب سے استنجا کرنا درست ہے۔
(تسہیل بہشتی زیور: جلد 1، صفحہ 228)
———————————————-
واللہ اعلم بالصواب
1نومبر2022
7ربیع الثانی 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں