ڈیڑھ ماہ سے کم کے حمل کا اسقاط

فتویٰ نمبر:4054

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

مجھے یہ پوچھنا ہے کہ مجھے جنوری کے مہینے میں 31 تاریخ کو ماہواری آنی تھی مگر نہیں آئی تو میں نے پانچ چھ دن بعد گھر میں ہی اپنا پریگننسی ٹیسٹ کیا تو اس میں پوزیٹو آیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میں حاملہ ہوں، ابھی بالکل ابتداء ہے۔

اب کیا میں کوئی دوائی لے سکتی ہوں کہ مجھے ماہواری آجائے؟ یہ قتل تو نہیں ہوگا اسلام میں ؟؟ ابھی بچہ کی صرف جھلی ہی بنی ہوگی کوئی عضو نہیں بنا ہوگا اور نہ سانس آئی ہوگی مجھے امید ہے؛ کیونکہ مجھے نہ تو الٹیاں وغیرہ ہیں نہ کچھ اور محسوس ہورہا ہے۔ 

میرے پہلے سے تین بچے ہیں اور ہر بچے سوا سوا سال کے وقفے سے ہیں اور تیسرا بچہ تین سال کا ہوگیا ہے۔میں بہت زیادہ پریشان ہوں کیوں کہ آجکل اتنے سارے بچوں کی ایک ساتھ تربیت کرنا بہت مشکل ہے اور مجھے بھی دوران حمل بہت کمزوری ہوجاتی ہے اور بعد میں بھی سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

آپ مجھے اسلام کا حکم بتادیں جو بھی حکم ہوگا اسلام میں، میں ان شاء اللہ اسی پر عمل کروں گی۔

والسلام

الجواب حامدا و مصليا

وعليكم السلام! 

حمل کو بلا عذر شرعی گرانا ناجائز اور حرام ہے،البتہ ضرورت شدیدہ کے وقت ایک سو بیس دن سے پہلے پہلے مجبوری کے باعث اسقاط حمل کی گنجائش ہے، لیکن اس مدت کے بعد قطعاً اجازت نہیں۔

اب وہ عذر جو شرعا معتبر ہیں وہ درج ذیل ہیں:

1۔حمل ٹھہرنے کے بعد عورت کا مستقل بیمار پڑجانے یا جان سے جانے کا خوف ہو. 

2۔ طبی آلات کے ذریعہ معلوم ہوجائے کہ بچے میں خلقی نقص اور جسمانی اعتبار سے بہت زیادہ غیر معتدل ہونے کا قوی خطرہ ہو، جس سے اس کی ساری زندگی بوجھ بن جائے۔

3۔ بچے کے کسی خطرناک موروثی مرض میں مبتلا ہو کر پیدا ہونے کا قوی خطرہ ہو۔

4۔ والدین اپنے موجودہ حالات کے اعتبار سے اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں کہ بیک وقت دو بچوں کی رضاعت وتربیت کا نظم کرسکیں اور زیر پرورش بچے کی رضاعت وتربیت مختصر وقفے کی وجہ سے حمل کی پیدائش سے متاثر ہوسکتی ہے۔

تو ان تمام صورتوں میں ایک سو بیس دن سے پہلے اسقاط جائز ہے.

مذکورہ صورت میں ان مندرجہ بالا أعذار میں سے کوئی ایک بھی عذر نہیں پایا جا رہا.

دوران حمل کمزوری اور قے وغیرہ کا آنا مرض کے دائرے میں داخل نہیں، اسی طرح یہ سوچ کہ بچے بہت ہوگئے یا ان کی پرورش میں تنگی ہوگی یہ صرف شیطانی دھوکہ ہے۔لہذا ایسی صورت میں اسقاط حمل کی شرعاً اجازت نہیں ہو سکتی.

◼”إسقاط ما في رحم المرأة له أحوال:

1 – يباح إلقاء النطفة قبل أربعين يوماً لعذر، بشرط إذن الزوج، وعدم تضرر الزوجة.

2 – يحرم إسقاط الجنين بعد مرور أربعين يوماً إلا إذا كان هناك خطر محقق على حياة الأم.

3 – إذا نُفخت الروح في الحمل فيحرم إسقاطه؛ لأنه قَتْل للنفس المعصومة، إلا إذا قرر الأطباء أنه لا يعيش إلا أحدهما، فتقدم سلامة الأم.

4 – إذا بلغ الحمل أربعة أشهر فأكثر فيحرم إسقاطه؛ لأنه قَتْل صريح للنفس المحرم قتلها، فالإجهاض جناية فاحشة موجبة للقصاص أو الدية”.

(الفقه الاسلامى:١٢٨/٤)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:2جمادی الثانی1440ھ

عیسوی تاریخ:7فروری2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں