گیارہویں کا کھانا

فتویٰ نمبر:4057

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

السلام علیکم ،پڑوسی گیارہویں کرتے ہیں ،اور کبھی کھانا ہمیں بھیجتے ہیں تو کیا کھالینا چاہیے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

وعلیکم السلام!

یہ کھانا اگر ایصال ثواب کی نیت سے پکایا گیا ہو تو صدقہ کے حکم میں ہے، اس کا بہتر مصرف فقراء مساکین ہیں گو مال دار پر بھی نفلی صدقہ لگ سکتا ہے ۔

اگر یہ بطور نیاز غیر اللہ کے ہے اور اس عقیدے سے پکایا گیا ہے کہ اس سے میت کی عظمت ہو گی اور وہ خوش ہوکر نیاز دینے والے کو اللہ کا مقرب بنادیں گے تو یہ شرک ہے اور ایسی نیاز کھانا کسی کے لیے جائز نہیں۔

لیکن ہماری معلومات کے مطابق عموما اس طرح کے کھانوں میں تعظیم غیر اللہ کی نیت نہیں ہوتی اس لیے اس کا کھانا جائز ہے۔

” ۚ وَالَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اَوْلِيَآءَۚ مَا نَعْبُدُهُـمْ اِلَّا لِيُـقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّـٰهِ زُلْفٰىؕ”

{سورۃ زمر ۳}

“جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں { اور کہتے ہیں} کہ ہم ان کی پوجا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں گے”۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ایسا کرنا درست نہیں۔

“النذر للمخلوق لا یجوز؛ لأنہ عبادۃ، والعبادۃ لا تکون للمخلوق، ومنہا أن المنذور لہ میت، والمیت لا یملک، ومنہا إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ، والاعتقاد ذٰلک کفر۔”

(البحر الرائق، قبیل باب الاعتکاف ۲؍۲۹۸)

مٹھائی کھانا وغیرہ جن کو غیر اللہ کے نام پر نذر کے طور پر جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں، حضراتِ فقہاء نے اس کو بھی اشتراک علت یعنی تقرب الی غیر اللہ کی وجہ سے ما أہل لغیر اللّٰہ بہ کے حکم میں قرار دے کر حرام کہا ہے۔ (مستفاد: معارف القرآن: ۱؍۳۶۸)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:12ربیع الثانی1440ھ

عیسوی تاریخ:19 دسمبر2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں