بارہ سال کےبچے کے زیر ناف بال کاٹنے کا حکم 

سوال ۔ اگر بچہ ابھی بالغ نہیں ہوا (۱۲ سال کا ہے) لیکن بغل اور زیرِ ناف ہلکے ہلکے بال آنا شروع ہوگئے ہیں۔ تو بھی

چالیس دن نہ کاٹنے پر وعید ہے ؟

الجواب باسم ملھم الصواب

مذکورہ صورت میں والدین کو چاہیے کہ بارہ سال کے لڑکے کو پاکی اور طہارت کے مساٸل سے آگاہ کریں؛ تاکہ ابتدا سے ہی اسے طہارت کی عادت پختہ ہوجاٸے، البتہ جب تک لڑکا بالغ نہ ہو تو وہ شریعت کے کسی حکم کا مکلف نہیں ہوتا , لہذا بلوغت سے پہلے چالیس دن گزرنے پر زیرِ ناف بال نہ کاٹنے پر گناہ گار نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات ۔

١ ۔” عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْفِطْرَةُ خَمْسٌ – أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ – الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ»”

( الصحیح للمسلم ۔٢٢٢/١

ترجمہ ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ میں داخل ہیں اور دینِ فطرت کے خاص احکام ہیں:  ختنہ ، زیرِ ناف بالوں کی صفائی ، مونچھیں تراشنا ، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا ۔

٢۔ ”عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: – قَالَ أَنَسٌ -: «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً»”.

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ ۴۰ روز سے زیادہ نہ چھوڑیں۔

٣ ۔ ”(و) يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة وجاز في كل خمسة عشرة وكره تركه وراء الأربعين، مجتبى. (قوله: وكره تركه) أي تحريماً لقول المجتبى: ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد اهـ وفي أبي السعود عن شرح المشارق لابن ملك: روى مسلم عن أنس بن مالك: «وقت لنا في تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لانترك أكثر من أربعين ليلةً». وهو من المقدرات التي ليس للرأي فيها مدخل فيكون كالمرفوع اهـ”.

(الدر المختار ۔ ٤٠٦/٦)

٤ ۔”(مبدأ سنّ البلوغ في الرجل اثنتا عشرة سنةً، وفي المرأة تسع سنوات، ومنتهاه في كليهما خمس عشرة سنةً. وإذا أكمل الرجل اثنتي عشرة سنةً ولم يبلغ يقال له: “المراهق”، وإذا أكملت المرأة تسعًا ولم تبلغ يقال لها: “المراهقة” إلى أن يبلغا) إن أقل سنّ يمكن أن يحتلم فيها الذكور ويبلغوا هي اثنتا عشرة سنةً، والإناث تسع سنوات، و منتهى السن في الاثنين خمس عشرة سنةً عند الإمامين، وعليه فمتى أتم الذكر الثانية عشرة من عمره يمكن أن تظهر عليه آثار البلوغ المذكورة في المادة الآنفة؛

( دررالحکام شرح مجلة الأحکام ٢٦٣/٢، دارالکتب العلمیة، بیروت)

٥۔”فتحصل من هذا أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببًا للولد أو المس الذي يكون سببًا لهذا الوطء ولايخفى أن غير المراهق منهما لايتأتى منه الولد“. ( فتاوی شامیہ ,٣٥/٣ دارالفکر)

فقط واللہ اعلم بالصواب

8ربیع الثانی 1443

16نومبر 2021

اپنا تبصرہ بھیجیں