24kگولڈ سیرم کا

فتویٰ نمبر:985

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

گولڈ سیرم24کا استعمال مردوں کے لیے جائز ہے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

تحقیق سے معلوم ہوا کہ 24k گولڈ سیرم چند روغنیات کا مجموعہ ہےاور اس کو چہرے کی جھریاں ختم کرنے اور جلد کی خوب صورتی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر سونے کے ورق کے ذرات ڈالے جاتے ہیں ۔ غالبا سوال پوچھنے کا منشا بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے لیے سونا پہننا جائز نہیں تو کیا اس قسم کے روغنیات کا استعمال جائز ہوگا جن میں سونے کی آمیزش ہے۔ یہ بات تو بالکل درست ہے کہ مرد کے لیے سونا پہننا جائز نہیں شریعت میں اس کی ممانعت ہے۔ 

یہاں یہ سمجھنا چاہیے کہ سونا چاندی من جملہ جمادات کے ہیں اور جمادات سب پاک اور حلال ہیں الا یہ کہ کوئی ایسی چیز ہو جس میں نشہ ہو یا مضرصحت ہو۔ سونا چاندی اور دیگر جمادات میں ایک فرق ہے کہ ان دونوں کا بطور زیور کے علاوہ استعمال درست نہیں اور زیور بھی صرف عورتیں استعمال کرسکتی ہیں ۔

معجون خمیرہ وغیرہ میں سونے چاندی کے ورق ہوں تو ان کا حکم یہ ہے کہ اگرسونے چاندی کے ورق معجونوں میں اس طرح حل کردیے جائیں کہ تمام ادویہ کے ساتھ حل ہو کر ایک ذات ہوجائیں تو اس صورت میں وہ سونا چاندی شمار ہی نہیں ہوں گے اور اگر پوری طرح حل نہ ہوں تو کپڑے کی گوٹ کی طرح محض تابع ہیں کیونکہ اس کو سونا چاندی کی معجون کوئی نہیں کہتا بلکہ جزو غالب کے نام سے موسوم کرتے ہیں الا یہ کہ معجون میں ورق غالب ہو۔ دوسرا یہ کہ جو ورق ڈالے جاتے ہیں ان میں سونے چاندی کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ، تحقیق سے معلوم ہوا کالعدم ہوتی ہے جیسے ہندو پاک وغیرہ میں پان اور کھیر وغیرہ میں چاندی کے ورق استعمال کرنے کا رواج ہے،ان کو کوئی ناجائز نہیں کہتا اور بہشتی زیور میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ چاندی کے ورق کھانا یا سرمہ میں ڈالنا جائز ہے۔

چونکہ سوال مذکور میں پوچھے جانے والے سیرم میں بھی سونے کے یہ ورق استعمال کیے جاتے ہیں اور غالب مقدار میں بھی نہیں ہوتے اس لیے اس کا استعمال مردوں کے لیے ناجائز نہیں ہوگا۔ 

ولایجوز للرجال التحلي بالذہب، والفضۃ-إلی قولہ-والتختم بالذہب علی الرجال حرام۔ (ہدایۃ، کتاب الکراہیۃ، فصل في اللبس اشرفي ۴/۴۵۷)

وإن کان الغالب علیہما الغش فلیسا في حکم الدراہم والدنانیر اعتبارًا للغالب (ہدایۃ، کتاب الصرف، اشرفي بکڈپو دیوبند ۱/۱۰۸-۱۰۹) 

لا بأس بالعلم من الحریر في الثوب إذا کان أربعۃ أصابع أو دونہا ولم یحک فیہ خلافًا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۳۲)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:23/2/1440

عیسوی تاریخ:2/11/2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں