نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
قال النبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم: شعبان شھری و رمضان شھراﷲ
(مرتخریجہ)
اللہ کی بڑائی بیان کرنا ممکن نہیں:
میرے محترم دوستو بزرگو!اللہ بڑے ہیں، اللہ کی بڑائی اتنی بڑی ہے کہ نہ اس کی بڑائی کو کوئی کماحقہ سمجھ سکتاہے ،نہ کوئی اس کی کماحقہ تعر یف کرسکتاہے ،سب سے زیادہ اللہ کی تعریف اور اللہ کی تعظیم کرنے والے اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ ہیں ،لیکن احادیث میں آتاہے ،اللہ کے نبیﷺ فر ماتے ہیں کہ اللہ خود اپنی تعریف کریں اور اس سے اللہ کی تعریف کا حق اد اہو تو یہ ممکن ہے، لیکن کوئی اور اللہ کی تعریف کا حق ادا کر سکے یہ ممکن ہی نہیں۔ اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں کہ جب قیامت کے دن تمام امتیں جمع ہوں گی اور مجھے مقام محمود عطا ہوگا اس وقت میں اللہ کی ایسی تعریف کروں گا ،اتنی تعریف کروں گاکہ وہ خود ابھی میں بھی نہیں جانتا۔بعض علماء نے لکھا ہے کہ اللہ کے نبیﷺکئی سو سال سجدے میں گر کر اللہ کی تعریف اور حمد و ثناء کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ’’اے محمدﷺ سجدے سے اپنا سر اُٹھا لیجیے اور سوال کیجیے! جو سوال کریں گے پورا کیا جائے گا‘‘۔ آپ اندازہ کرلیں کہ اللہ کے اتنے بڑے نبی کئی سوسال اللہ کی حمد ثناء کریں گے تو اللہ کی حمد و ثناء کا حق ادا ہوگاتواللہ کی بڑائی اتنی بڑی ہے۔
۱۵شعبان کے بعد روزہ کیوں بہتر نہیں ؟
اللہ کے نبی ﷺ نے ہر اس جگہ پر جہاں یہ شبہ ہو کہ اللہ کی مخلوق کو اللہ کے برابر قرار دیا جائے گا اللہ کے نبی ﷺ نے اس شبہ کو ختم کرنے کے لیے خصوصی احکام جاری فرمائے ہیں،شعبان کو اللہ کے نبی ﷺ نے اپنا مہینہ قرار دیا اور اس کے روزو کو سنت قرار دیاتا کہ رمضان کے روزوں کی تیاری میں یہ معاون ہو،لیکن 15شعبان کے بعد روزہ رکھنے کو خلاف اولیٰ قرار دیا،تاکہ رمضان جو اللہ کا مہینہ ہے اس کے روزے رکھنے میں لوگوں کو کمزوری اور سستی محسوس نہ ہو، شعبان کے روزے اللہ کے نبی ﷺ نے رمضان کی تیاری کے لیے اُمت کے لیے شروع کیے تھے،اگر 15 شعبان کے بعد بھی روزے رکھے جائیں گے تو یہ خدشہ ہے کہ اللہ کے فرض کردہ روزوں میں سستی نہ ہوجائے۔ گویا کہ 15 شعبان کے بعد روزے ممنوع قرار دے کر اُمت کو یہ سبق دیا ہے کہ بندو! اللہ کے حکم کے آگے کسی کا حکم نہیں چلتا، اللہ کے نبی ﷺنے 15شعبان کے بعد کے روزوں کو ممنوع قرار دیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے نبیﷺکے حکم کو کوئی اللہ کے فرض کے برابر نہ کردے۔ اللہ کے نبیw چاہتے ہی یہ ہیں کہ میرے اُمتی اللہ کی بڑائی اس کے حق کے مطابق ادا کریں!
روزۂ رمضان ۔۔۔چند شبہات کا ازالہ:
روزے کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں: یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرۃ: آیت ۱۸۳)
اے وہ لوگو!جو اللہ کو اور اللہ کے احکام کو دل سے مانتے ہو!تم پر روزے فرض قرار دیے گئے ہیں کتب کا لفظ عام طور پر فرض قرار دینے کے لیے آتا ہے،ہاں! جہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تفسیر خود کردی ہو کہ یہاں یہ لفظ کتب فرض کے لیے نہیں ہے تو وہ فرض کے لیے نہیں ہوتا، باقی سب جگہوں پر کتکتب فرض کے معنی میں قرآن میں استعمال ہوا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں، یہاں دوسرا لفظ علیکم کا استعمال ہوا ہے، علیکم عربی میں تھوڑی پریشانی برداشت کرنے کا معنی بھی رکھتا ہے، اس لحاظ سے آیت کے معنی یہ ہوئے کہ روزے رکھنے فرض ہیں،اس کی ادائیگی میں تمہیں تھوڑی مشقت بھی برداشت کرنا پڑے گی پھر سوال پیداہوا کہ یہ مشقت قابل برادشت ہے بھی کہ نہیں؟ تو فرمایا کہ یہ مشقت قابل برداشت ہے یہی وجہ ہے کہ گذشتہ اُمتوں یہود و نصاری بلکہ تمام مذاہب میں روزہ رکھنے کا تصور موجود ہے اور وہ روزے رکھتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ روزے رکھنا مشکل نہیں۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ روزے نہیں رکھتے ان کا یہ عذر ہر گز قبول نہیں کہ روزہ برداشت نہیں ہوتا ایک انسان رزق روزی کے لیے گھنٹوں دھوپ میں مشقتیں جھیلتا ہے اہل وعیال کی کفالت کے لیے کیسی کیسی مزدوریاں کرتا ہے،جب اس کے لیے انسان تیار ہے تو روزہ کے لیے کیوں تیار نہیں اور روزہ کیوں ادا نہیں کرتا؟
روزے کے روحانی فوائد:
رزق کے لیے مشقت جھیلنے کو کوئی شخص مشقت نہیں کہتا کیونکہ اس کے بعد راحت اور زندگی کاآرام ملتا ہے اسی طرح روزے کو مشکل کہنا اس لیے درست نہیں کہ اس کے بعد جو نعمتیں انسان کو ملنے والی ہوتی ہیں وہ اس مشقت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، وہ نعمت ہے اللہ کی رضااور تقوی کی دولت! چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جنتی جب جنت میں چلے جائیں گے تو اللہ جل شانہ جنتیوں سے کہیں گے کہ مجھ سے کچھ اور مانگو! تو لوگ کہیں گے کہ ہمیں تو آپ نے سب نعمتیں دے دی ہیں اب اور ہم کیا مانگیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے مجھ سے کچھ اور مانگو تو جنتی پھر یہی کہیں گے تو اللہ تعالیٰ تیسری بار یہی فرمائیں گے: کہ مجھ سے کچھ اور مانگو تو جنتی، وہاں علمائے کرام سے رجوع کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا کیا جواب دیا جائے؟ علماء کہیں گے کہ اللہ سے اس کا دیداراور زیارت مانگو! معلوم ہوا کہ اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اللہ کا دیدار ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ روزہ دار میرے لیے روزہ رکھتا ہے وانا اَجزی بہا اور میں ہی اس کے اس عمل کا بدلہ عطا کروں گا۔ اللہ خود کسی چیز کا بدلہ عطا فرمائیں گے وہ سوچنے کا مقام ہے کہ کتنا عظیم اور بڑا ہوگا۔ بعض علما نے اس حدیث کو اس طرح پڑھا ہے کہ وانا اُجزیٰ بہ کہ روزے کا بدلہ میں خود ہوں تو روزہ اتنی بڑی عبادت ہے کہ اس کے بدلے میں بندے کو کائنات کی سب سے بڑی دولت اور نعمت یعنی اللہ مل جاتے ہیں۔
میرے دوستو! دنیا کی خاطر تو انسان ہر قسم کی تکلیف برداشت کرلیتا ہے،دنیا کے چند روزہ سکون کی خاطر تو انسان ہر قسم کی ذلت برداشت کر تا ہے،دن رات کی پرواہ نہیں کرتا اور اللہ جل شانہ ہمیں مل جا ئیں اس کے لیے تھوڑی سی مشقت بھی برداشت نہیں، اللہ کے نبی ﷺ اللہ کی عبادت میں پوری پوری رات تہجد میں کھڑے رہتے تھے،پیروں میں ورم آجاتا تھا، پھر بھی اللہ کی محبت میں اللہ کے سامنے کھڑے رہتے تھے۔معلوم ہوا کہ جس کو اللہ سے محبت ہوجائے وہ ہرقسم کی مشقت برداشت کرسکتا ہے۔اللہ ہم سب کو اپنی محبت نصیب فرمائے۔
روزہ ۔۔۔ حصولِ تقویٰ کی مشق ہے:
اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روزے کا حکم امت کو کیوں دیا گیا؟ اس میں کس کا فائدہ ہے؟تو اللہ جل شانہ اس کا جواب دیتے ہیں کہ اس میں فائدہ اللہ کا کوئی نہیں فائدہ انسانوں کا ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان کو تقوی حاصل ہو جائے گا۔ تقوی کا کیا مطلب ہے؟ تقوی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اللہ کا خوف حاصل ہو جائے ایسا خوف حاصل ہو جائے کہ اس کی وجہ سے وہ گناہوں سے بچ جائے۔روزہ تقوی کے حصول کی مشق ہے جس طرح روزے میں انسان تنہائی میں بھی کھانے پینے اور نفسانی خواہش کو پورا کرنے سے بچتا ہے،یہی چیز اس کو روزے کے بغیر بھی حاصل ہوجائے کہ جلوت ہو یا خلوت ہر وقت انسان اللہ کے ممنوعات سے بچنے والا بن جائے!اسی کا نام تقوی ہے۔
اللہ J ہمیں رمضان کی قدر کرنی کی توفیق عطا فرمائے! روزہ چھوڑ نے جیسے کبیرہ گناہ سے اور روزے کی تحقیر کرنے سے ہماری حفاظت فرمائے اور اللہ ہم سب کو باسہولت با عافیت رمضان کی مبارک ساعتیں نصیب فرمائے، اللہ ہر قسم کی روحانی جسمانی بیماریوں سے ہماری حفاظت فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے! آمین
Load/Hide Comments