ستر ہزار دفعہ کلمہ طیبہ پڑھنے کی فضیلت۔

فتویٰ نمبر:4017

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

1۔ پہلا کلمہ 70,000 مرتبہ پڑھنا، جس کے بارے میں آتا ہے کہ جو یہ نصاب پڑھے اس کو دوزخ کی آگ سے نجات ملے۔

اگر کوئی اس فضیلت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تعداد اپنے لیے یا اپنے مرحومین رشتہ داروں کے لئے پڑھے تو مفتیان کرام اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

2۔ کیا یہ وظیفہ حالت حیض میں پڑھ سکتے ہیں؟

3۔ اور اس بارے میں بھی روشنی ڈالیے کہ بعض سے یوں سنا کہ ایک سانس میں پہلا جزو جتنی مرتبہ پڑھا جاۓ اور سانس ٹوٹنے پر دوسرا جزو محمد رسول اللہ پڑھ لیا جاۓ آیا یہ طریقہ درست ہے یا ہر مرتبہ پورا کلمہ شریف پڑھا جائے گا؟

والسلام

الجواب حامدا ومصليا

1۔ ستر ہزار دفعہ کلمہ طیبہ پڑھنا بزرگوں کے مجربات میں سے تو ہے مگر صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا اس کو حدیث کہہ کر بیان کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کوئی شخص کسی خاص تعداد اور کسی خاص فضیلت کو بیان کیے بغیر اس کلمے کو کثرت سے ورد کرے تو یقینا اس کے لیے باعث اجر و ثواب ہوگا اور اگر مرحومین کے لیے پڑھا جائے تو ان شاء اللہ ان کے لیے مغفرت کا سبب ہوگا۔ 

کیونکہ یہ کلمہ افضل ترین کلمات میں سے ہے اور اس کے عمومی فضائل بے شمار ہیں۔

2۔ حالتِ حیض میں یہ وظیفہ پڑھ سکتے ہیں، کیونکہ حالت حیض میں نماز پڑھنا، قرآن کی تلاوت کرنا، روزہ رکھنا منع ہے، اس کے علاوہ زبان یا دل سے ذکر کرنا، بیان یا قرآن سننا وغیرہ جائز ہے۔

3۔ ایک سانس میں کلمے کے پہلے جزو کو پڑھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، اس طرح پڑھنا اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنا ہے اور شریعت مطہرہ نے دین میں آسانی پیدا کی ہے اور آسانی پیدا کرنے کا حکم دیا ہے، البتہ کلمہ میں دو جزو ہیں ، لاإلہ إلا اللہ الگ جز ہے اور محمد رسول اللہ الگ جز ہے، دونوں الگ الگ جز قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، ایک جز کو پڑھنے سے ایک ہی کا ثواب ملے گا اور دونوں کو پڑھنے سے دونوں کا ثواب ملے گا۔ البتہ مشائخ کا معمول یہ رہا ہے کہ پہلے جز ”لا إله إلا اللہ“ کا ورد کرنے کی صورت میں ۱۰، ۱۵، مرتبہ کے بعد ”محمد رسول اللہ“ بھی شامل کر لیتے ہیں۔ 

“عن عتبان بن مالك – رضي الله عنه – عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله عزّ وجلّ”.

(رواه البخاري: 425)

“وقال: ویجوز للجنب والحائض الدعوات وجواب الأذان ونحو ذلك، کذا في السراجیة”․ (الفتاوی الہندیة: ٩٣/١)

“قال النبي صلى الله عليه وسلم: يسروا ولا تعسروا، بشروا ولا تنفروا”.

(صحيح البخاري: ١/ ٦٩) 

“قال النبي صلى الله عليه وسلم: من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد”.

(صحيح البخاري: ٢٦٩٧)

واللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:25/5/1440

عیسوی تاریخ: 31/1/2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں