آبائی گاؤں سے منتقل ہونے کے بعد وہاں جانے کی صورت میں نماز کے قصر اور اتمام کا حکم

سوال:ہمارا ایک گھر چکوال میں ہے یعنی میکے کے گاؤں میں۔۔ اور ایک گھر اسلام آباد میں ہم رہتےاسلام آباد میں ہی ہیں۔چکوال صرف کسی عید کے موقعے پر یا کسی خاص موقعے پر ایک یا دو دن کے لیے ہی آتے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ ہفتے کے لیے۔اب میکے میں قصر نماز پڑھنی ہوتی ہے یا پوری۔مہربانی فرما کر وضاحت کر دیں۔
اور سسرال میں جیسے میرے شوہر کی آبائی زمینیں بھی ہیں تو کیا سسرال میں پوری نماز پڑھیں۔میکے اور سسرال کا راستہ بیس منٹ کا ہے گاڑی پر۔

الجواب باسم ملھم الصواب:
واضح رہے کہ لڑکی شادی کے بعد شوہر کے تابع ہوتی ہے ،اس لیے اگر وہ اپنے والدین کے گھر پندرہ یوم سے کم قیام  کے ارادے سے جاتی ہے اور میکہ مسافتِ سفر(سوا ستتر کلو میٹر) پر واقع ہے تو اس صورت میں عورت اپنے میکے میں قصر نماز ادا کرے گی ۔اور اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کہ نیت سے جائے یا میکہ مسافتِ سفر سے کم پر واقع ہے تو مکمل نماز ادا کرنی ہوگی۔
آپ کے شوہر کے لیے حکم کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو   اس کا پہلا وطن اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطن اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے بھی تعلق ہے اس کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں ہے، مثلاًاس کی زمینیں اور مکانات وغیرہ وہاں موجود ہیں تو دونوں  جگہیں اس کے وطن اصلی شمار ہوں گے ، جب وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگا، اور درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے شوہرنے چکوال سے مستقل طور پر تعلق ختم کرکے اس کی وطنیت کو ختم نہیں کیا، بلکہ  اسلام آباد میں رہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی نیت ہے کہ چکوال کا آبائی علاقہ بھی ہمارا وطن ہے، تو  وہ وہاں مکمل نماز پڑھیں گے، اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ہی کیوں نہ گئے ہوں، لیکن اگر  انہوں نے یہ نیت کی ہے کہ اب چکوال  ہمارا وطن اصلی نہیں رہا  اور اہل وعیال سمیت اسلام آبادہجرت کرلی ہےاور اب وہاں رہنے کا ارادہ نہیں ہے،تو اب وہ پندرہ دن سے کم کے لیے چکوال جائیں گے تومسافر ہوں گے اور قصر نمازپڑھیں گے۔
—————————
حوالہ جات:
1:البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2 / 147):
“وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطناً له، وقيل: تبقى وطناً له؛ لأنها كانت وطناً له بالأهل والدار جميعاً، فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر. ا هـ
 وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم، فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر

2:قال في الدر (مع الرد کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر: 599/2):
من خرج … صلی الفرض الرباعي رکعتین… حتی یدخل موضع مقامہ إن سار مدة السفر … أو ینوي… إقامة نصف شہر… بموضع واحد صالح لہا ۔

3:الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
”من خرج من عمارة موضع إقامته … مسيرة ثلاثة أيام و لياليها من اقصر ايام السنة…الخ“
  (كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر،ج:2،ص:222، ط: سعيد)
3:فتاوی ہندیہ میں ہے:
”ولا بد للمسافر من قصد مسافة مقدرة بثلاثة أيام حتي يترخص برخصة المسافرين…الخ “
( كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر،ج:1،ص:139، ط: رشيدية)

4:فتاوٰی شامی میں ہے:
”( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه ( يبطل بمثله ) إذا لم يبق له بالأول أهل فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما ( لا غير و ) يبطل ( وطن الإقامة بمثله و ) بالوطن (الأصلي و ) بإنشاء ( السفر ) والأصل أن الشيء يبطل بمثله وبما فوقه لا بما دونه، ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته، وما صوره الزيلعي رده في البحر”. (2/132)

5:”بیوی کی اگر رخصتی ہو چکی ہے اور وہ اپنے میکے ملنے کے لیے آتی ہے تو وہ وہاں مسافر ہو گی جبکہ اس کی نیت وہاں پندرہ دن ٹھہرنے کی نہ ہو“
(آپ کے مسائل اور ان کا حل ج۔ 2ص383)

والله سبحانه وتعالى اعلم
تاريخ:27/9/22
1 ربیع الاول1444

اپنا تبصرہ بھیجیں