آسمانی کتابوں سے متعلق عقائد

آسمانی کتابوں سے متعلق عقائد

حق تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں پر جو کتابیں اور صحیفے نازل کئے وہ سب حق ہیں،اور ان پر ایمان لانا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کتابیں اور صحیفے انبیاء ومرسلین پر نازل فرمائے ان کی تعدادبعض روایتوں کے مطابق ایک سو چار ہے۔ ان میں سے پچاس صحیفے حضرت شیث علیہ السلام پر ، تیس حضرت ادریس علیہ السلام پر ، دس حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور دس حضرت آدم علیہ السلام پر اترے۔اورچار مشہور کتابیں توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ، زبور حضرت دائود علیہ السلام پر ، انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اور قرآن کریم حضرت محمد مصطفی ا پر نازل فرمایا۔

فی زمانہ گذشتہ آسمانی کتب کا حکم

قرآن کریم سے پہلے جتنی کتابیں اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں پر اتاریں،وہ سب برحق تھی، اور اُس زمانہ کے لوگوں کے لیے ان کتابوں پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا فرض تھا،لیکن امت محمدیہ کے لیے ان کتابوں پر ایمان لانا تو فرض ہے ،مگر ان پر عمل کرنا جائز نہیں ،اب قیا مت تک صرف قرآن کریم پر عمل کیا جائے گا ۔ فی زمانہ جو توریت اور انجیل یہود ونصاری کے پاس ہے،وہ سب تحریف شدہ ہیں۔ قرآن وحدیث سے ان میں تحریف ہونا ثابت ہے۔

ارشاد باری تعالی:مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ (سورہ نساء:46)

ترجمہ: یہودیوں میں سے کچھ وہ ہیں جو (تورات) کے الفاظ کو ان کے موقع محل سے ہٹا ڈالتے ہیں (یعنی تحریف کرتے ہیں)‘‘۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:وَیْلُٗ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا (سورہ بقرہ:79)

ترجمہ: خرابی ہے ان کے لئے جو کتاب اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے ،تاکہ اس پر تھوڑی سی قیمت لیں۔‘‘

قرآنِ مجید سے متعلق عقائد

قرانِ مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،اور تمام آسمانی کتابوں میں سب سے افضل ہے،قرآن کریم کو نازل کرکے اللہ تعالیٰ نے پچھلی تمام آسمانی کتابوں کو منسوخ کردیا۔آج تک قرآن پاک میں کوئی تحریف نہیں ہوئی اور نہ ہی ممکن ہے، کیونکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود خالق کائنات نے لی ہے۔

ارشاد فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ (سورہ حجر:9)’’

بے شک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

وَاِنَّہٗ لَکِتَابٌ عَزِیْزُٗ لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلُٗ مِنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ (سورہ فصلت:42)

’’بے شک یہ بڑی عزت والی کتاب ہے، جس تک باطل کی کوئی رسائی نہیں ہے، نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، یہ اس ذات کی طرف سے اتاری جا رہی ہے جو حکمت کا مالک ہے، تمام تعریفیں اسی کی طرف لوٹتی ہیں ‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو یہ خصوصی وصف اور خصوصی حفاظت عطا فرمائی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج تک قرآن پاک میں ایک شوشہ کی بھی تحریف وتبدیلی ممکن نہیں ہوئی اور قرآن جیسے نازل ہوا تھا ویسے ہی آج بھی موجود ہے اور قیامت تک رہے گا۔

قرآن پاک میں تحریف کا عقیدہ رکھنا کفر ہے۔قرآنِ مجید میں جن چیزوں کے ہونے یا پائے جانے کی خبر دی گئی ہے، ان سب کو صحیح اور سچا ماننا ضروری ہے، ان میں سے کسی ایک چیز کا انکار کرنا یاا س میں شک کرنا کفر ہے۔

اعجاز قرآن

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اور گزشتہ تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں کے لئے ناسخ ہے۔ دیگر کتابیں اور صحیفے صرف مضمون کے اعتبار سے معجز تھے جب کہ قرآن پاک نظم (لفظ) اور معنی دونوں کے اعتبار سے معجز ہے۔یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود کوئی قرآن کریم جیسا کلام پیش نہیں کرسکا۔قرآن نے بارہا چیلنج کیا کہ جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ قرآن کسی انسان کا کلام ہے ،ان کو چیلنج ہے کہ وہ اس کتاب جیسی کوئی کتاب بنا کر لے آئے، لیکن کوئی اس چیلنج کو پورا نہ کرسکا،پھر چیلنچ نرم کردیا گیا کہ اگر مکمل کتاب نہیں بناسکتے تو ایک سورت ہی بناکر لے آؤ، لیکن کوئی یہ چیلنج بھی پورا نہ کرسکا،آخرمیں قرآن نے یہ چیلنج کیا کہ کم از کم ایک آیت ہی بناکر لے آؤ،مگر کسی میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ قرآن جیسی ایک آیت بھی بناسکے۔

بڑے بڑے شاعر اور فصیح اللسان لوگ پیدا ہوئے لیکن کوئی اس کی ہمسری نہیں کرسکا۔قرآن کریم پُراثر کلام ہے، اسلوب خطیبانہ ہے،اس میں نثر بھی ہے اور نظم بھی۔جملوں کی ترکیب اور ساخت بے نظیر ہے،ہر جملہ حسن کامرقع ہے،ہرجملہ اتنا موزوں ہےکہ اس سے بہتر جملہ اس مقام پر آہی نہیں سکتا۔قرآن کریم مختصر پُر اثرالفاظ پر مشتمل ہے۔اس میں تشبیہات،تلمیحات اور تمام اصناف ادب موجود ہیں۔کہیں کوئی ایسا لفظ نہیں جو زبان وادب کی چاشنی کے خلاف ہو۔تذکیروموعظت کے لیےواقعات جابجا ہیں ،واقعات سے کلام میں دل چسپی پیدا ہوتی ہے اور انسان ان سے عبرت حاصل کرتا ہے۔جتنی بار پڑھا جائےہر بار معانی ومطالب کا ایک نیا باب عیاں ہوتا ہے، صدیاں گزرگئیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے قرآن پاک کے تمام معانی ومطالب پر عبور حاصل کرلیا ہے۔اس کی تعبیرات ایسی لچک دار ہیں کہ ہر زمانے کا ساتھ دیتی نظر آتی ہیں۔علوم وفنون کتنے ہی ترقی کرلیں لیکن جب انسان قرآن کریم کے بیانات پڑھتاہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔وہ جسے جدیددور کی جدید ترین اورسب سے مستندعلمی کاوش سمجھتا تھا قرآن کریم میں اس کےواضح اشارے نظر آتے ہیں۔

ویکیپیڈیانےجارج سیل کاقول آویزاں کیا ہے وہ کہتا ہے:

’’ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ کوئی انسانی قلم اسے لکھ نہیں سکتا،یہ مُردوں کو زندہ کرنے سے زیادہ بڑا معجزہ ہے۔‘‘

قرآن کریم میں بیان کردہ تمام پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں۔قرآن نے کہا کہ بدر میں کفار کوشکست ہوگی، واقعی شکست ہوئی۔ قرآن نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ عمرہ کریں گے،چنانچہ عمرہ نصیب ہوا۔الغرض!قرآن کی ہر پیشین گوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی۔

سطور بالامیں ہم عرض کرچکے ہیں کہ علوم وفنون چاہے جتنی ترقی کرلیں ،زمانہ چاہے جتنا آگے نکل جائے قرآن کریم کے اشارات سے باہر ہرگزنہیں نکل سکتے،انہیں قرآن کے سامنے سرنگوں ہونا ہی پڑے گا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے جس کامشاہدہ ہردور کے لوگوں نے بارہاکیا،بگ بینگ کا نظریہ ہو یا نظریہ اضافیت،انکشافات پتھروں کے شعورکے بارے میں ہوں یاکائنات کے پھیلاؤکے بارے میں۔انسانی پیدائش کےترتیب وار مراحل ہوں یابادلوں کی ثقل کے حقائق ،حیوانات، جمادات، نباتات ،فلکیات،مابعد الطبیعات ؛غرض!قرآن کریم ان سب کے بارے میں اشارات فراہم کرتا ہے۔

ماضی قریب اور عصر حاضر کے مصنفین میں سے ڈاکٹرموریس بکائیے،شیخ علی الطنطاوی،ڈاکٹر ذاکر نائیک،ڈاکٹرولی رازی،ڈاکٹرطاہر القادری اور انور بن اختر نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔جبکہ ویب سائٹس کی دنیامیں ویکیپڈیا،دلیل السلطان،الحاد جدید کا علمی محاکمہ ، صفہ پی کےاوردیگر ویب سائیٹس پرسائنس اور قرآن کے حوالےسےبہت کچھ لکھا جاچکا ہےاور مزید لکھاجائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ علوم ختم ہوجائیں گے لیکن قرآن کریم کے عجائبات اور اس کے اعجازی پہلوکبھی ختم نہ ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں