ابو طالب کے ایمان لانے کے بارے میں اہل سنت کا موقف

سوال:السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

حضرت ابو طالب کے ایمان لانے کے بارے میں اہل سنت کا کیا موقف ہے؟ کسی مستند کتاب سے حوالہ مل سکتا ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتِ وفات جب اپنے چچا ابو طالب پر ایمان پیش کیا تو انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا،لہذا ان کی وفات حالتِ کفر پر ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:

1۔ “إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ”.

(سورة القصص: 56)

ترجمہ:

“اے نبی ! آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت عطا فرماتا ہے”۔

یہ آیت کریمہ بالاتفاق ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جیسا کہ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

” فقد أَجمع المفسرون على انها نزلت في ابي طالب، وكذا نقل إجماعهم على ھذا الزجاج وغيره، وھي عامه فانه لا يھدي ولا يضل الا الله تعالى”.

(شرح صحیح مسلم للنووی:1/215، داراحیاءالتراث العلمی)

ترجمہ:

“مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ زجاج وغیرہ نے مفسرین کا اجماع اسی طرح نقل کیا ہے۔ یہ آیت عام ( بھی ) ہے۔ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے”۔

2۔ “عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمه: ” قل: لا إله إلا الله، اشهد لك بها يوم القيامة”، قال: “لولا ان تعيرني قريش، يقولون: إنما حمله على ذلك الجزع لاقررت بها عينك”، فانزل الله إنك لا تهدي من احببت ولكن الله يهدي من يشاء”.

(سورة القصص: 56)( صحیح مسلم، كتاب الْإِيمان: 135)

ترجمہ:“حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے کہا: “لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ” کہہ دیں، میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ انہوں نے جواب دیا: “اگر مجھے قریش یہ طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے اس بات پر آمادہ کر دیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا”۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی: “إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ”.

”یقیناً جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے؛ البتہ جسے اللہ چاہے ہدیات عطا فرمادیتا ہے”۔

3۔ “حدثنا العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، قال للنبي صلى الله عليه وسلم: “ما اغنيت عن عمك فإنه كان يحوطك ويغضب لك”، قال:” هو في ضحضاح من نار، ولولا انا لكان في الدرك الاسفل من النار”.

(صحیح البخاری: باب قصة أبي طالب: 3883)

ترجمہ:“حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: “آپ اپنےچچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوتے تھے”؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا، تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتے”۔

4۔ “وقد استدل بعض من ذهب من الشیعة وغیرهم من الغلاۃ إلی أن أبا طالب مات مسلما یقول العباس هذا الحدیث “یا ابن أخي! لقد قال أخي الکلمة التي أمرته أن یقولها – یعني لا إلٰه إلا اللّٰه – والجواب عن هذا من وجوہٍ، أحدها أن في السند مبهماً لا یعرف حاله وهو قوله عن بعض أهله، وهذا إبهام في الاسم والحال ومثله یتوقف فیه لو انفرد”.

(البداية والنهایة: 3/123، سیرۃ ابن هشام بیروت: 2/377)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

3 ربیع الثانی 1443ہ

9 نومبر 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں