ہر بڑے ، درمیانی اور چھوٹے ادارے میں اچھے اور کا م کے بندوں کو اپنے ادارے میں اپنی خدمات تسلسل کے ساتھ برقرار رکھنے کا عمل ہر ادارے کی انتظامیہ کے لیے چیلنج بن جاتا ہے ۔ جس سے نمٹنے کے لیے احتیاط اور تدبیر کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ جو حادثات کے وقوع اور صدمات (shocks) سے بچنے کے لیے ضروری ، بلکہ ناگزیر ہے ۔اسی موضوع پر پاکستان کی کار پوریٹ ہسٹری ستے ایک مثال آپ کی خدمت میں گور وخوض کے لیے پیش ہے۔ ان شاء اللہ اس قصے سے جو سبق حاصل ہوگا ، زیادہ بہتر طور پر سمجھ آئے گا۔
” ہوا یہ کہ ملک کے ایک بڑے مالیاتی ادارے جس کے کل ملازمین کی تعداد 26 ہزار سے متجاوز تھی ۔ملک بھر میں 13 سو سے زائد شہروں میں ان کی شاخیں (Branches) تھیں ۔ بیرون ممالک کے اہم بڑے شہروں میں بھی ان کی شاخوں (Branches)اور نمائندگان (Correspondents)کاجامع نیٹ ورک موجود تھا ۔ ان کے مد مقابل بین الاقوامی ادارے پاکستان میں اور بیرون ملک موجود تھے ۔
اعلیٰ سطح انتظامیہ نے انفرادی وسائل کے تازہ اور نوجوان خون (Young Blood ) کو اپنے ادارے میں شامل کرنے (induct) کا فیصلہ کیا اور اچھی ساک ھ رکھنے والے تعلیمی اداروں کے ذی استعداد فارغ التحصیل نوجوانوں کو ملک گیر اشتہاری مہم کے ذریعے متوجہ کیا ۔ تلاش اور انتخاب کے لیے ٹیم تشکیل دی گئیں ۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں (Aptitude test ) میلانی اور رجحانی امتحانات، گروپ ڈسکشنز اور انٹرویوز کے لیے درجنوں الگ الگ ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں ایک دن میں۔ ایک ہی وقت میں امتحانات اور جائزوں کا اہتمام کیاگیا۔ اس پوری مشق میں سینکڑوں کا رکنان کا وقت صرف ہوا اور کروڑوں کے مصارف ہوئے ۔ اور بالآخر 120 آفیسرز کا انتخاب عمل میں آیا۔ اس کے بعد ان کی ایک سالہ ٹریننگ کا پروگرام شروع کیا گیا۔ جو تکنیکی اعتبار سے بھرپور تربیتی پروگرام ثابت ہوا اور دوران تربیت ہی کورس کے شرکا نے پروفیشنل ڈپلومہ کے امتحانات ( جو ایک مستند ، آزاد اور غیر جانب دار انسٹی ٹیوٹ کے تحت لیے جاتے تھے ) میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں ، حتی کہ اول ، دوئم اور سوئم پوزیشن کے ساتھ ساتھ خصوصی مضامین کے گولڈ میڈلز بھیوہ زیر تربیت افسران لے اڑے ۔ ان کی شاندار کامیابی کی دھوم مچ گئی اور مد مقابل (Competitions) میں کھلبلی مچ گئی ۔ اور شہرت اس حد تک پہنچی کہ حکومت چین نے اپنے ایک قومی ادارے کی تربیت کے لیے اس کورس کا انتخاب کر کے حکومت پاکستان کے ساتھ پانچ سالہ تربیتی معاہدہ کیا ۔ جس کے تحت سینکڑوں چینی افسران اور عہدیداران کو پاکستان میں تربیت دی گئی ، لیکن مد مقابل بین الاقوامی ادارے اس کامیابی کو ہضم نہ کر سکے اور تدبیریں لڑانے لگے ۔ اور بالآخر اس شاندار کامیابی کا پھل اچک لے گئے ۔
ہوا یوں کہ جب تربیت کا عمل مکمل ہوا تو ان نو تربیت یافتہ افسر ان کی تعیناتی کا عمل شروع کرنے کے لیے ایک عجیب پالیسی تشکیل دی گئی اور اس پر عمل درآمد شروع کردیاگیا۔ طے یہ پایا گیا کہ بین الصوبائی ہم آہنگی کے لیے ان تمام افسران کو ان کے اپنے صوبوں اور ان کی پسند کے مطابق مقام کار کے بجائے دوسروں صوبوں میں ان مقامات پر بھیجا جائے، جہاں عملے کی کمی ہے، جس کے نتیجے میں ایک گولڈ میڈلسٹ کی تشکیل اندرون سندھ کے ایک ضلعی مقام پر ہوگئی ۔ دوسرے پوزیشن ہولڈر کو بلوچستان کے دور افتادہ علاقے میں متعین کردیاگیا ۔ اور کسی کو کے پی کے دیہی ضلع میں متعین کردیا گیا۔ علی ھذا لقیاس متعلقہ افسران کی پسند وناپسندمجبوریوں ، دلچسپیوں ، ان کی اہلیت واستعداد اور مناسب مقام کار کے انتخاب کو یکسر نظر انداز کر کے ان کی پوسٹنگز ( تعیناتیاں ) کردی گئیں ۔ خیال رہے یہ تمام افسران 5 سال تک ملازمت کے پابند تھے ۔ معاہدے کی خلاف ورزی کے عوض انہیں 5 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا تھا ۔
مد مقابل (Competitors ) ادارے تاک میں تھے ۔ وہ اپنے آپ کو حالات سے باخبر رکھتے تھے ۔ اور (Head Hunters ) (پیشہ ور ملازمین کے شکاری) Consultants اور اپنے نمائندوں کے ذریعے ان سے رابطے میں تھے ۔ ان کی تعیناتیوں سے پیدا ہونے والی بے چینی اور اضطراب سے فائدہ اٹھا کر ، ان کو چوائس پوسٹنگ آفر کردیں اور تنخواہ مراعات دگنی کردیں ۔ معاہدے کا ہر جانہ 5 لاکھ روپے بھی ادا کردیا ۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ فائدے میں رہے ۔ کروڑوں کے مصارف کے ساتھ پیشہ وارانہ تربیت اور HR کی بے مثال محنت کا ثمرہ وہ کوڑیوں کے مول لے بھاگے ۔
قارئین کرام ! آج اس دور میں افرادی ومسائل کو ہیومن کیپیٹل ((Human Capital کا نام دیا جارہا ہے۔ اور اس پر آنے والے مصارف کو (Expenses ) کے بجائے Investment ) قرار دیاجاتا ہے۔ اس لیے کہ افراد ہی کام کرتے ہیں ۔ا داروں کی ساکھ اور نام کارکنان کی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے، انہیں ادارے کے ساتھ رکھنے کے لیے اور پیداوار یت میں بڑھوتری کے لیے ضروری ہے کہ ان کا ذہن پڑھا جائے ، ان کے مسائل جانے جائیں ۔ اور ادارے کے مقاصد کو ان کے انفرادی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ کیاجائے ۔ ان کی وفاداری (Loyalty ) میں روز بروز اضافے کا سامان مہیا کیاجائے ۔ ان کی رائے کو اہمیت دی جائے ۔ انہیں ادارے کا اٹوٹ انگ بنایاجائے ۔ وہ یہ یقین رکھیں کہ ہم ہی ادارہ ہیں ۔ ادارہ کوئی بیرونی چیز نہیں ہے ۔شاید کچھ دوست اسے خواب وخیال کی باتیں قرار دیں ، لیکن میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اگر منیجمنٹ کارکنان کی ” عزت نفس ” کا دلی مظاہرہ کر لیں ۔ دل سے ان کی قدر کریں ۔ان سے محبت کریں ، تو کوئی وجہ نہیں کہ ملازم ، مالک پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار نہ رہتا ہو ۔
قارئین کرام ! میں نے ایک ادارے میں اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھے ہیں ۔کانوں سے جملے سنیں ہیں ، آپ بھی پڑھ لیں ۔
٭ اسلام آباد میں ایک نجی ادارے کے کارپوریٹ آفس میں جنرل منیجر (HR ) گزشتہ 26 برس سے ادارے میں منسلک اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ عمر کی سات دہائیاں مکمل کرچکے ، آٹھویں شروع ہے ۔ اس ادارے میں شامل ہونے سے پہلے وہ ایک اور بڑے ادارے میں کامیابی کے ساتھ 25 برس سروس مکمل کر چکے ہیں ۔ ادارے میں ان کی عزت واحترام اور مالکان کی جانب سے ان کو دی گئی سہولتیں اور نوجوان معاون کو دیکھ کر ان کی وفاداری ((Loyalty ) پر ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ۔
٭ اسی نجی ادارے کے کارپوریٹ میں آفس نوجوان، ادھیڑ عمر مختلف پروفیشنز سے منسلک ہر کارکن اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آیا۔ دوپہر کے کھانے کا انتظام ادارے کے ذمے ہے۔ حسن انتظام کے ساتھ ، عزت وقار کے ساتھ ، صاف ستھرا ماحول اور دو ڈشوں کے انتخاب کے انتخاب کے ساتھ ، گرم گرم روٹی اور ٹھنڈا پانی وغیرہ ۔اسراف سے پاک باوقار انداز تکریم۔
٭ نماز کا وقت ہوا تو اذان کی آواز ہر کمرے اور کوریڈور میں گونجنے لگی ۔ کام چھوڑدیا گیا۔ نماز کی تیاری شروع اور پھر سب کا رخ اس چھوٹی سی خوبصورت مسجد کی جانب ہوگیا جو اسی دفتر کے Basement میں تھی اور ائیر کنڈیشنڈ تھی ۔ اور مسجد میں چیف ایگزیکٹو آگئے اور ڈائریکٹران بھی، جنرل منیجر اور منیجر سمیت سارا عملہ صفوں میں موجود نظر آیا ۔
٭ مختلف کام کرنے والے ساتھیوں سے گفتگو ہوئی ۔ مشاہدے کے دوران میں نے ایک عجیب بات محسوس کی ۔ ہر کارکن کے چہرے پر سکون تھے ۔اطمینان تھا اور یوں لگا جیسے اس پر کوئی Tension نہ ہو، جنکہ نجی ادارے کے ملازمین کے شہروں سے پریشانی ،ا لجھاؤ اور کام کے دباؤ کے آثار بڑے واضح نمایاں نظر آتے ہیں ۔ا ور چلتے پھرتے وہ مصیبت زدہ کا اشتہار نظر آتے ہیں ،
٭ میرا تجسس مجھے چین سے بیٹھنے نہ دیتا تھا ۔ میں نے ادارے کے ذمہ داروں ست گزارش کی کہ کیا یہ ممکن ہے کہ میں آپ کی فیکٹری کا ایک چکر لگالوں ۔ فورا پذیرائی ہوئی اور دوسرے روز فیکٹری پہنچا ۔ وہاں کے مشاہدات ملاحظہ فرمائے :
٭ فیکٹری کے G.M production نے استقبال کیا۔ صفائی ستھرائی کا بہترین انتطام ، وسیع وعریض رقبے میں پھیلی ہوئی فیکٹری میں جدید کمپیوٹرائز مشین اور صفائی ستھرے لباسوں میں ملبوس کارکنان اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ وسل ہوا۔ شفٹ کا وقت ختم ہوا۔ دوسری شفٹ شروع ہوئی لیکن میں نے دیکھا کہ ایک سیکشن میں کچھ افراد نے چھٹی نہیں کی ، وہ بدستور کام کررہے تھے ۔ میرے استفسار پر جواب ملا ۔ یہاں پر ساتھی کی رضامندی سے کام کی مقدار کا تعین ہوتا ہے اور ہر شخص اپنا کام پورا کر کے جاتا ہے ۔ وقت کی قید کو خاطر نہیں لاتا ۔
٭ ایک کارکن سے ملاقات کی۔ پوچھا: کب سے ہو؟ کہنے لگا : گزشتہ 16 سال سے ۔ میں نے پوچھا : تم نے کہیں اور کام تلاش نہیں کیا ؟ کام کا تجربہ تو حاصل ہو ہی گیا تھا ۔ جواب میں وی جذباتی ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ اس نے گھٹنے اور پنڈلی سے کپڑا اٹھایا اورا یک گہرے زخم کا شگاف دکھایا ۔ اور کہا کہ صاحب آپ یہ دیکھ رہے ہو کام کے دوران مجھے یہ زخم آیا ۔ مالکان نے علاج معالجہ کرایا ۔ مجھے مکان دیا۔ میرے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا اور میرے بوڑھے ماں باپ کا بھی خیال رکھا ۔ میں ایسے مالک کو چھوڑ کر کہیں اور جاؤں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ۔ وہ مالک نہیں میرا مائی باپ ہے۔ مائی باپ کو بھی کوئی چھوڑ سکتا ہے ۔
٭GM صاحب سے گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ میکنیکل انجینئر ہیں اور جب سے فیکٹری قائم ہوئی۔ ان کے ساتھ ہیں ۔ میں نے اس طویل رفاقت کا سبب جاننا چاہا تو انہوں نے فرمایا : ” جناب ! ابھی ابھی آپ نے اس کارکن کی بات سنی۔ ان شاء اللہ یہاں کام کرنے والے دو ہزار افراد میں ہر شخص یہی کہے گا : ” ماں باپ کو چھوڑ کر کون جائے”؟ پھر انہوں نے اپنا واقعہ سنایا: ” فیکٹری کے مالک ایہک روز میرے دفتر تشریف لائے ۔ میری میز پر کریڈٹ کارڈ کے حوالے سے بینک کی جانب سے ادائیگی کا مطالبہ تھا ۔ میں بس ناسمجھی میں اس چکر میں پڑگیاتھا ۔ انہوں نے وہ خط اٹھایا اورپڑھا اور مجھ سے فرمایا : ” بھائی اس جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ ” میں احساس شرمندگی سے زمین میں گڑا جارہا تھا ۔ منہ سے صرف یہی نکلا : ” بس جناب غلطی ہوگئی ” ۔ فرمایا : ” غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے ۔ پریشان نہ ہو اور اس کی ادائیگی کےا حکامات اس پر لکھ دیتا ہوں ۔ فنانس ڈپارٹمنٹ تک پہنچادو۔اور ہاں ! اگر تم اس کی ادائیگی مجھے کرنا چاہو تو مدت ومعیار کی فکر نہ کرو، مختصر سی رقم کی قسط مقرر کر لو۔ اب آپ بتائیے یہ ایک شفیق باپ کا رویہ نہیں ہے ؟ صرف باپ ہی ایسا کرتا ہے ۔ مزید یہ کہ :
٭ میرے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے مصارف کمپنی برداشت کرتی ہے ۔
٭ مجھے والدین کے ساتھ عمرے پر کمپنی کے مصارف سے بھیجاجاتا ہے ۔
٭ مجھے اپنا ذاتی مکان حاصل کرنے میں مدد کی جاتی ہے ۔
٭ میرے والد کے انتقال پر سینکڑوں میل دور کا سفر کر کے میرے غم میں برابر شریک ہو کر میرے ساتھ تجہیز وتکفین اور تدفین کے تمام مراحل میں شامل ہوا جاتا ہے ۔ اب آپ ہی بتائیے ، میں انہیں چھوڑ کر کہیں اور جاؤں تو کیوں جاؤں ؟؟
قارئین کرام ! Employee Retention کا سنہری اصول مخبر صادق حضرت محمد ﷺنے فرمادیا ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ : “تمہارے زیر دست ہمارے بھائی ہیں، جو تم کھاؤ ،ا نہیں کھلاؤ، جو تم پہنو ا نہیں پہناؤ۔ ان پر ایک بساط سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو ، اور اگر ڈالنا بھی ہوتو خود ان کے ساتھ شریک ہو کر ان کا بوجھ ہٹاؤ۔ اور اس پیغام کا بنیادی نکتہ : ” عزت نفس کا “احترام ” دل سے ، صرف زبان سے نہیں ، بلکہ اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا ۔ رہ گئی Retention policy کی بات تو یقینا س اس کا اہتما م بھی کیا جائے ۔ اور ان عوامل کو پیش نظر جائے جن کا تعلق مادی اسباب سے اور جو ملازمین کے لیے رغبت کا سبب بن سکے ۔ ان میں سیلری پیکیج Benefits ) ) ، مقام کار پر سہولیات ، علاج معالجہ ، سہولت وغیرہ کا خیال مارکیٹ میں موجود رجحانات کے مطابق ہو ۔ علاوہ ازیں ملازمین کے خیالات ورجحانات کی جانکاری کے لئے براہ راست یا بالواسطہ معلومات حاصل کی جائیں ۔ا ن اسباب کو جانا جائے جن کی وجہ سے ملازم ایک لمبے عرصے کے لیے کسی ادارے سے منسلک رہنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں Stay Interviews بھی کیے جاتے ہیں ۔ چھوڑ کر جانے والوں کے Exit Interviews بھی معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔ تاہم جو پالیسی بھی ترتیب ہو۔ا س کا محور ی نکتہ ” عزت نفس کا احترام ” ہونا لازمی ہو۔ دل جیت لیجئے ۔ اپنا بنالیجئے ۔ اسی رشتے کا بندھن آپ اور آپ کے ملازمین کو ایک لمبے عرصے کے لیے باندھے رکھے گا۔