عدالتی خلع کا حکم

فتویٰ نمبر:635

سوال:ایک خاتون کی شادی کو دو مہینے ہوئے. ناچاقی کی وجہ سے شوہر کے طلاق نہ دینے پر عدالت سے خلع لے لیا.

اب اس کا اگلے ماہ دوسری جگہ نکاح ہے.

پوچھنا یہ ہے کہ فقہ حنفی کے مطابق یہ عدالتی خلع قابل اعتبار ہے اور وہ خاتون دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے؟ (اب تو دوسری جگہ نکاح کی تاریخ بھی پکی ہو گئی ہے.)

الجواب حامداومصلیاً

خلع کے لیے شرعا شوہر کی رضامندی ضروری ہے بغیر شوہر کی رضامندی کے یکطرفہ خلع معتبر نہیں البتہ اگر فسخ نکاح کی کوئی شرعی بنیاد موجود ہوتو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر شوہر نے عدالت میں حاضر ہوکر ان تمام الزامات کا انکار کردیا تھا اور عورت کا دعوی ثابت نہیں ہوسکا اور اس کے باوجود عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کردی تو اس صورت میں بھی یہ فیصلہ معتبر نہیں اور اگر شوہر عدالت میں حاضر نہیں ہوا جبکہ عدالت نے اس کو سمن بھی جاری کیے تھے لیکن شوہر کو اس کی اطلاع نہیں ہوئی تو بھی عدالت کا فیصلہ معتبر نہیں.

لیکن اگر شوہر نے عدالت میں حاضر کر ان الزامات کو تسلیم کرلیا یا عدالت کے سمن وصول کرنے کے باوجود عدالت میں حاضر نہیں ہوا تو اس (عدالت میں حاضر نہ ہونے)سے شوہر کا “تعنت”ثابت ہوگیا اور عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کردی تو یہ فیصلہ فسخ نکاح کے طور پر نافذ ہوجائے گا اور معتبر ہوگا اور فیصلہ کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہوجائے گی اور عدت بعد دوسری جگہ نکاح کرنا درست ہوگا دوران عدت نکاح کا پیغام دینا یا شادی کی تیاری کرنا جائز نہیں ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں