ایڈوانس کی بڑی رقم لے کر کرایہ میں کمی کرنے کا حکم

سوال: ایک شخص نے ایک صاحب کو بارہ لاکھ روپے دیے لینے والے نے دینے والے کو یہ سہولت دی کہ یہ بارہ لاکھ  ایڈوانس کی مد میں ہوں گے اور  زیادہ ایڈوانس دینے کی وجہ سے اس مکان کا کرایہ بیس ہزار کے بجائے تین ہزار لوں گا اور آپ کو اختیار ہے کہ آپ کسی اور کو زیادہ رقم میں کرائے پر دے دوکیا شرعا یہ طریقہ درست ہے؟ سود کا یہ حیلہ تو نہیں کہلائے گا۔اور اگر یہ بالفرض نا جائز ہو تو جائز کرنے کا کیا طریقہ ہوگا؟

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ ایڈوانس کی رقم میں اضافہ کرکے  کرایہ میں اتنی  زیادہ مقدار میں کمی کرنا جس کا عرف نہ ہو  جائز نہیں، چونکہ بیس ہزار کا مکان تین ہزار  کرائے پر دینے کا معاشرے میں کوئی عرف نہیں اس لئے ایسا کرنا جائز نہیں، عدم جواز کی وجہ یہ ہے کہ کرایہ دار سے ایڈوانس کی مد میں جو رقم لی ہے وہ قرض ہے  ،ا ور چونکہ مالک مکان ا س قرض کی وجہ سے کرایہ  میں کمی کر رہاہے،ا س لیے یہ ا س قرض سے فائدہ اٹھاناہےاور قرض کے عوض کوئی بھی مشروط منفعت حاصل کرنا سود  ہے ،لہذا  ا س سے بچنا واجب ہے۔

اس کی جائز   صورت  یہ ہے کہ کرایہ دار لمبے  عرصہ  کے لیے  جس کی میعاد متعین ہومکان کرایہ پر لے لے اور کل کرایہ کا مثلا ً نصف حصہ پیشگی  کرایہ کے طور پر دیدےاور نصف کرایہ مہینے کے طور پر  دیتا رہے ، مثلا پانچ سال کے لیے مکان کرایہ  پر لیا اور ہر ماہ کا کرایہ دس ہزار روپے طے  ہواتو پانچ  سال کی مدت کا نصف کرایہ پانچ ہزار کے حساب سے  یعنی تین لاکھ  (0(30000مالک مکان کوپیشگی دے دے ،ا ور ہرماہ پانچ  ہزار روپے کرایہ   بھی دے دے،اس طرح مالک مکان کے پاس ایک ساتھ  معقول رقم آجائے گی ،ا ور ہر ماہ کرائے کی مد میں بھی کچھ رقم آتی رہے گی،البتہ اس صورت میں اس رقم پر کرایہ کے احکامات جاری ہوں گے جس میں مندرجہ ذیل احکام کی رعایت رکھنا ضروری ہوگا،۱۔ متعینہ مدت سے پہلے اجارے کو ختم کرنے کی صورت میں بقیہ مدت کے مقابلے میں اس رقم کا جو حصہ آتا ہے اسے واپس کرنا ضروری ہوگا ۲۔متعینہ مدت کے اندر مالک کے لیے بغیر کسی شرعی عذر کے اس معاملہ کو ختم کرنا جائز نہیں ہوگا اگر مالک بغیر شرعی عذر کے اس معاملہ کو ختم کرنا چاہے تو کرایہ دار اپنے حق سے دستبردار ہونے کے لئے عوض کا مطالبہ کرسکتا ہے، اور یہ عوض پیشگی دی گئی رقم کے علاوہ ہوگا،۳۔متعینہ مدت کے اندر کرایہ دار  مکان کسی اور کو کرائے پر دے سکتا ہے اور اس سے دستبرداری کے طور پر معاوضہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔

البتہ کرائے دار کا  کسی دوسرے شخص کو متعین کرایہ سے زیادہ رقم  پرکرائے پر دینا    اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ کرایہ دار نے اس کرایہ کے مکان  میں کچھ اضافی کام (مثلا رنگ وغیرہ  یا   اس میں دیگر تعمیراتی کام) کرایا ہو  تو ایسی صورت میں وہ  نقد کی شکل میں پہلے کرایہ سے زیادہ    پر بھی دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے۔

المبسوط للسرخسي (14/ 35)

“نهى رسول الله – صلى الله عليه وسلم – عن قرض جر منفعة» وسماه ربا”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)

“وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن”

النتف في الفتاوى (1/ 484)

“انواع الرِّبَا واما الرِّبَا فَهُوَ ثَلَاثَة اوجه احدها فِي القروض وَالثَّانِي فِي الدُّيُون وَالثَّالِث فِي الرهون…فاما فِي القروض فَهُوَ على وَجْهَيْن احدها ان يقْرض عشرَة دَرَاهِم باحد عشر درهما اَوْ بِاثْنَيْ عشر وَنَحْوهَا وَالْآخر ان يجر الى نَفسه مَنْفَعَة بذلك الْقَرْض اَوْ تجر اليه وَهُوَ ان يَبِيعهُ الْمُسْتَقْرض شَيْئا بارخص مِمَّا يُبَاع اَوْ يؤجره اَوْ يَهبهُ… وَلَو لم يكن سَبَب ذَلِك هَذَا الْقَرْض لما كَانَ ذَلِك الْفِعْل فان ذَلِك رَبًّا وعَلى ذَلِك قَول ابراهيم النَّخعِيّ كل دين جر مَنْفَعَة لَا خير فِيهِ”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 394)

“(و) كره (إقراض) أي إعطاء (بقال) كخباز وغيره (دراهم) أو برا لخوف هلكه لو بقي بيده. يشترط (ليأخذ) متفرقا (منه) بذلك (ما شاء) ولو لم يشترط حالة العقد لكن يعلم أنه يدفع لذلك شرنبلالية، لأنه قرض جر نفعا وهو بقاء ماله فلو أودعه لم يكره لأنه لو هلك لا يضمن وكذا لو شرط ذلك قبل الإقراض ثم أقرضه يكره اتفاقا قهستاني وشرنبلالية”

بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص: 115)

“تحقق مما ذكرنا أن بدل الخلو المتعارف الذي يأخذه المؤجر من مستأجره لا يجوز، ولا ينطبق هذا المبلغ المأخوذ على قاعدة من القواعد الشرعية، وليس ذلك إلا رشوة حراما. نعم: يمكن تعديل النظام الرائج للخلو إلى ما يلي: 1- يجوز للمؤجر أن يأخذ من المستأجر مقدارا مقطوعا من المال، يعتبر كأجرة مقدمة لسنين معلومة  وهذا بالإضافة إلى الأجرة السنوية أو الشهرية. وتجري على هذا المبلغ المأخوذ أحكام الأجرة بأسرها، فلو انفسخت الإجارة قبل أمدها المتفق عليه لسبب من الأسباب، وجب على المالك أن يرد على المستأجر مبلغا يقع مقابل المدة الباقية من الإجارة. 2- إذا كانت الإجارة لمدة معلومة استحق المستأجر البقاء عليها إلى تلك المدة فلو أراد رجل آخر أن يتنازل المستأجر عن حقه، ويصير هو المستأجر بدله، يجوز للمستأجر الأول أن يطالب بعوض.3- إذا كانت الإجارة لمدة معلومة، لا يجوز للمؤجر أن يفسخها إلا بمبرر شرعي، فإن أراد أن يفسخها دون مبرر شرعي، جاز للمستأجر أن يطالبه بعوض، ويكون ذلك نزولا عن حقه بعوض

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 29)

” ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا،(قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح”

اپنا تبصرہ بھیجیں