اللہ سے وعدہ خلافی کا حکم

سوال:میں جب 12 سال کی تھی تب سے یہ عادت ہے کہ جب بھی مجھے کوئی ٹینشن ہوتی تھی میں اپنی پلکیں اوربہنویں نوچتی تھی جس سے مجھے وقتی سکون ملتا تھا پھر ابھی کچھ عرصہ پہلے میں ایک ڈاکٹر کے پاس گئی تو انہوں نے مجھے اس مسئلہ کا حل یہ بتایا کہ تم اللہ تعالی سے وعدہ کرو کہ جب بھی تمہارا ہاتھ اس پر جائے گا تو تم کچھ صدقہ کرو گی اور تم اپنی طرف سے خود ہی فکس کر لو تو میں نے 100 روپے فکس کر لیے۔ تو الحمد لله مجھے اس کی وجہ سے بہت کامیابی ہوئی اور میری بھنوین بھی ٹھیک ہو گئیں۔ لیکن اب پھر کچھ عرصہ سے میرے شوہر سے جھگڑے شروع ہو گئے اور میرا پھر سے ہاتھ جانے لگا تو میں نے amount کو بڑھا دیا۔ میں نے کہا یہ پھر سے پکی عادت ہو جائے گی تو میں نے 100 سے 1000 کی نیت کر لی کہ میں ایک بال اگر توڑوں گی تو میں 1000 روپے صدقہ کروں گی ۔ اس سے تو میرا مسئلہ کچھ حل ہو گیا تھا لیکن ابھی کچھ عرصہ سے پریشانی کی وجہ سے بار بار میرا ہاتھ جانے لگا ہے۔ اب میرا مسئلہ یہ کہ میں رقم لکھ لیتی ہوں جب بھی میں ایسا کرتی ہوں لیکن میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ میں وہ صدقہ کروں تو میں لکھ رہی ہوں کہ مجھے اتنی رقم صدقہ کرنی ہے اور وہ بہت زیادہ ہو گئی ہے تو اس کا کوئی اور حل ہے جو میں نے اللہ تعالی سے وعدہ کیا ہے کہ مجھے یہ صدقہ پیسوں کی صورت میں ہی کرنا پڑے گا یا اس کا کوئی اور حل ہے؟ میں انتظار تو کر سکتی ہوں کہ اتنے پیسے جمع ہو جائیں تو میں صدقہ کروں مگر زندگی موت کا کوئی بھروسہ نہیں تو اس دوسرا کوئی حل ہو سکتا ہے؟

تنقیح:زبان سے کچھ کہا تھا یا صرف نیت کی تھی؟
جواب تنقیح:صحیح سے یاد نہیں لیکن غالب گمان یہ ہے کہ زبان سے کہا تھا شاید۔
الجواب باسم ملهم الصواب
صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً زبان سے یہ مذکورہ الفاظ کہے تھے تو پھر یہ شریعت کی اصطلاح میں نذر بن گئی ہے۔ایسی صورت میں سائلہ  کے ذمہ یہ رقم ادا کرنا لازم ہوگی گو وہ کتنی زیادہ کیوں نہ ہو،تاہم اگر استطاعت نہ ہو تو ایسی صورت میں امام ابو حنیفہ رحمة الله کے نزدیک اس بات کی بھی اجازت ہے کہ وہ قسم کا کفارہ ادا کر کے بری الذمہ ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ
(سورہ الحج 29)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔” ومن نذر نذرا مطلقا فعليه الوفاء ” لقوله عليه الصلاة والسلام: ” من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى “”وإن علق النذر بشرط فوجد الشرط فعليه الوفاء بنفس النذر “

(ص321 – كتاب الهداية في شرح بداية المبتدي ۔ فصل في الكفارة)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3۔(قوله: ومن نذر نذرا مطلقا، أو معلقا بشرط ووجد وفى به) أي وفى بالمنذور لقوله عليه السلام من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى وهو بإطلاقه يشمل المنجز والمعلق ولأن المعلق بالشرط كالمنجز عنده أطلقه فشمل ما إذا علقه بشرط يريد كونه أو لا وعن أبي حنيفة أنه رجع عنه فقال إن فعلت كذا فعلي حجة، أو صوم سنة أو صدقة ما أملكه أجزأه عن ذلك كفارة يمين وهو قول محمد ويخرج عن العهدة بالوفاء بما سمى أيضا إذا كان شرطا لا يريد كونه؛ لأن فيه معنى اليمين وهو المنع وهو بظاهره نذر فيتخير ويميل إلى أي الجهتين شاء بخلاف ما إذا كان شرطا يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي لانعدام معنى اليمين فيه قال في الهداية وهذا التفصيل هو الصحيح وبه كان يفتي إسماعيل الزاهد كما في الظهيرية وقال الولوالجي: مشايخ بلخ وبخارى يفتون بهذا وهو اختيار شمس الأئمة – ولكثرة البلوى في هذا الزمان – وظاهر الرواية كما في المختصر للحديث المتقدم، ووجه الصحيح حديث مسلم «كفارة النذر كفارة اليمين» وهو يقتضي السقوط بالكفارة مطلقا فتعارضا فيحمل مقتضى الإيفاء بعينه على المنجز، أو المعلق بشرط يريد كونه وحديث مسلم على المعلق بشرط لا يريد كونه لأنه إذا علقه بشرط لا يريده يعلم منه أنه لم يرد كونه المنذور حيث جعله مانعا من فعل ذلك الشرط، مثل دخول الدار وكلام زيد؛ لأن تعليقه حينئذ لمنع نفسه عنه بخلاف الشرط الذي يريد كونه إذا وجد الشرط فإنه في معنى المنجز ابتداء فيندرج في حكمه وهو وجوب الإيفاء، ثم اعلم أن هذا التفصيل، وإن كان قول المحقق فليس له أصل في الرواية؛ لأن المذكور في ظاهر الرواية لزوم الوفاء بالمنذور عينا منجزا كان أو معلقا، وفي رواية النوادر هو مخير فيهما بين الوفاء وبين كفارة
( كتاب البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري – كتاب الأيمان – 4/ 320)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4۔جن صورتوں میں نذر منعقد ہو جاتی ہے ایفا لازم ہےاگر ایفا نہ کرے گا تو گناہ گار ہو گا۔
(امداد الفتاوی 5/ 525)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والله تعالى أعلم بالصواب
15 رجب 1444 ھ
7 فروری 2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں