امرؤ القیس کی طرف منسوب بعض اشعار اور ان کے بعض قرآنی آیات کے اصل ہونے کا دعوی

فیس بک پر موجود ملحدین کے گروپ کے ایک صاحب جناب سید امجد حسین شاہ (معلوم نہیں یہ اصل نام ہے یا قلمی ) نے کچھ عرصے سے قرآن اور اس کے اعجاز کے خلاف قسطوں میں پوسٹیں تحریر کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے. “قرآن اور اس کے مصنفین ” کے نام سے انھوں نے کچھ قسطوں کو جمع کر کے PDF شکل میں بھی اپ لوڈ کیا ہے. قرآنی قصوں پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان قصوں کی حقیقت مستشرق W. Clair Tisdall کی کتاب The Original Sources of the Quran میں موجود ہے اور میں نے ان کی باتوں کو اردو میں پیش کیا ہے لیکن ان ساری باتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مکمل کتاب تقریبا ٹسڈیل ہی کی کتاب کا چربہ ہے، گویا :
“انہی کی” محفل سجا رہا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی
“انہی کے ” مطلب کی کہ رہا ہوں زبان میری ہے بات ان کی
لیکن اس کے مندرجات کو اردو میں پیش کرتے ہوئے انھوں نے تحقیق وغیرہ ضروری نہیں سمجھی. یہاں اس بحث میں درج امرو القیس کے بعض اشعار پر کچھ کہنا مقصود ہے جو مؤلف کے نزدیک قرآن کی بعض آیات کی اصل ہیں.
کلیر ٹسڈیل کی مذکورہ بالا کتاب جرمن زبان میں لکھی گئی اور برطانوی دور میں ہندوستان میں مقیم معروف مستشرق ولیم میور نے اسے انگریزی میں ڈھالا جن کی لائف آف محمد کا رد سرسید نے لکھا تھا. یہ کتاب اور مصنف کی ایک دوسری کتاب The Sources of Islam مستشرقین کی طرف سے قرآن کو انسانی کتاب کتاب ثابت کرنے کے لیے سب سے خطرناک اور زہریلی کتابیں سمجھی جاتی رہی ہیں. اگرچہ اللہ کے فضل سے ان کتابوں کے متفرق اندراجات کے جوابات استشراقی شبہات کے رد میں لکھی جانے والی انگریزی اور عربی کتابوں میں دیئے گئے ہیں. یہاں ان تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ ایک دو گزارشات کی جاتی ہیں. آخر میں مزید مطالعہ کے لیے کچھ کتابوں کے نام پیش کیے جائیں گے.
کتاب میں معروف جاہلی شاعر امرو القیس کی طرف منسوب کر کے کچھ اشعار درج کیے گئے ہیں جن میں مختلف مصرعے بعینہ قرآن کی آیات کے اجزا ہیں. جیسے : انشق القمر، کانت الساعۃ ادھی و امر وغیرہ. ٹسڈیل نے نے اس مشابہت کی وجہ سے یہ قیاس کیا کہ نبی پاک ص نے قرآن میں یہ اجزا ان اشعار سے لے کر شامل کیے.
سب سے پہلے ان اشعار کی تلاش کے لیے میں نے امرو القیس کے دیوان کی ورق گردانی کی جسے عبد الرحمان المصطاوی نے شائع کیا ہے لیکن پورے دیوان میں ان اشعار کا کہیں دور دور تک نشان موجود نہیں ہے. عرب محقق منقذ بن محمود السقار نے اپنی کتاب “تنزیہ القرآن الکریم عن دعاوی المبطلین” میں ان اشعار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اہل تحقیق کے مطابق یہ اشعار قرآن سے ماخوذ ہیں نہ کہ قرآن ان سے ماخوذ ہے. ان اشعار کو عباسی دور میں تخلیق کر کے امرو القیس کی طرف منسوب کیا گیا. یہ چیز عربی شعر میں انتحال کہلاتی ہے جیسا کہ عربی شعر کے بعض راویوں جیسے حماد بن ہرمز الراویہ جیسوں کے ہاں نظر آتا ہے. اس کے بارے میں عربی ناقدین کا اتفاق ہے کہ وہ شعر تراشنے اور دوسروں کی طرف منسوب کرنے میں ماہر تھا.
علامہ رشید رضا مصری کے مجلے “المنار” کی مصر میں جدید مسلم فکر میں ایک نمایاں حیثیت سمجھی جاتی ہے. رشید رضا اس میں کتابوں پر تبصرے بھی تحریر فرماتے تھے. ایک عیسائی ادارے نے ایک کتاب “تنویر الافہام فی مصادر الاسلام” کے نام سے شائع کی. معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ٹسڈیل ہی کی باتوں کو دہرایا گیا. علامہ رشید رضا نے “المنار ” کی صفر اور ربیع الاول 1322 ھ کی اشاعتوں میں اس پر نہایت جان دار تبصرہ کیا اور اس میں ان اشعار کو زیر بحث لایا. عربی زبان کے چوٹی کے ادیب اور زبان کے ذوق آشنا ہونے کے باعث انھوں نے امرو القیس کی طرف منسوب ان الحاقی اشعار کا تقابل جاہلیت کے شعر سے کیا ہے اور فصاحت کے اعلی معیار کے مقابلے میں ان کی رکاکت پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں عطار کے لونڈوں کے عاشق مخنثین کا کلام قرار دیا ہے. یہ قصیدہ مادھو لال حسین کی طرح کسی غلام امرد کی تحسین میں ہے اور امرو القیس جیسوں کو اس مضمون سے کیا تعلق! بچہ پرستی کی شاعری عربوں میں عباسی دور میں شروع ہوئی ہے. رشید رضا کا تقابل نہایت دلچسپ ہے اور جو آدمی عربی شعر کے مزاج کا ذوق آشنا ہے وہ اس سے لطف اٹھا سکتا ہے. مصر کے نامور مصنف ابراہیم عوض ادیب اپنی کتاب “عصمۃ القرآن و جہالات المبشرین” میں بجا طور پر لکھتے ہیں کہ ان اشعار میں جو “دنت الساعۃ ” (قیامت قریب آ گئی ) کے الفاظ ہیں تو امروالقیس جیسا آدمی آخرت کا قائل نہیں تھا جو قرب قیامت اور انشقاق قمر کو یوں بیان کرتا. سوائے حنفا کے ایک قلیل گروہ کے جاہلیت میں یہ چیز ان کے نظام عقائد کا کوئی جز نہیں. ڈاکٹر ابراہیم ادیب نے ان اشعار کی داخلی شہادتوں پر مزید وقیع اور مفصل کلام کیا ہے. ٹسڈیل کے ان شبہات کو آج تک مکھی پر مکھی مارنے کے انداز میں دہرایا جا رہا ہے. عیسائیوں کی ایک جماعت نے دس سال سے زائد عرصہ ہوا ایک کتاب ” ھل القرآن معصوم ؟ ” شائع کی جس میں اس اعتراض کو بھی دہرایا گیا ہے. عرب دنیا کے معروف قرآنی محقق ڈاکٹر صلاح عبد الفتاح الخالدی نے تقریبا سات سو صفحات کی کتاب “القرآن و نقض مطاعن الرھبان ” میں اس کتاب کا مفصل رد کیا گیا ہے جو قابل استفادہ ہے. اس طرح کی چیزیں عیسائیت کے عالمی اور خطرناک منصوبوں کے تناظر میں ہمارے پاکستان کے فری تھینکر بھی پروموٹ کر رہے ہیں. ضمنا عرض ہے کہ عیساییت کے ان عزائم پر ڈاکٹر محمود احمد غازی کا وہ نہایت فکر انگیز لیکچر ضرور پڑھیں جسے ہمارے محترم ڈاکٹر عزیز الرحمان صاحب نے کراچی سے شائع کیا ہے. بات لمبی ہو گئی. کہنے کو اور بھی باتیں ہیں. ان شاء اللہ آئندہ.

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں