عربی بریل قرآن کا حکم

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نابینا ہوں اور قرآن مجید کی تلاوت بریل عربی سے کرتا ہوں جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس بریل قرآن مجید کے حروف میں سے ہر ایک حرف کے لیے ابھرے ہوئے نقطے ہوتے ہیںجن کو قوت لامسہ کے ذریعے پڑھا جاتا ہے بریل قرآن کے رسم کی حقیقت یہ ہے کہ 29 حروف تہجی اور حرکات وسکنات چھ نقطوںکے ارد گرد گھومتے ہیں علی سبیل المثال الف لکھنے کی علامت یہ ہے کہ چھ نقطوں میں سے دائیں طرف اوپر کا پہلا ابھرا ہوا نقطہ الف کہلاتا ہے دریافت بات یہ ہے کہ اس بریل قرآن کو بغیر وضو کے ہاتھ لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ اور آیا اس کو قرآن کہاجائے گا یا نہیں ؟

اور اس قرآن کو بغیر وضو کے ہاتھ لگانا (لایمسہ الا المطھرون۔۔۔الآیۃ ) 

فتویٰ نمبر:201

الجواب بالعون الملک الوھاب 

صور ت مسئولہ میں مذکورہ عربی بعیل کو بعینہ قرآن کا مصحف تو نہیں کہا جاسکتا اس لیے کہ قرآن کریم کے اطلاق کے لیے قرآن مجید کا رسم عثمانی کے مطابق عربی رسم الخط میں ہونا ضروری ہے تاہم اس عربی بریل کو نابینا افراد کی سہولت کے پیش نظر قرآن کریم کی تلاوت کے لیے بطور علامت اور معاون قرار دیاجاسکتا ہے بعینہ قرآن نہیں کہا جاسکتا چونکہ مذکورہ بریل عربی کو قرآن کریم کی تلاوت کی نیت سے چھوکر اس کے ذریعے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہےاس لیے ادب کا تقاضا یہ ہے کہ باوضو ہوکر اسے چھوا اور تلاوت کی جائے ۔

علوم القرآن میں ہے :

والقرآن ھو اللفظ والمعنیٰ جمیعا سمعہ جبریل من اللہ عزوجل وبلغہ الی محمد وسمعہ ۔۔ومن تعاریف الموجزین :ھوا سم لھذا المنزل اذا عرف باللام اوھو :اللفظ المنزل علی النبی محمد ﷺ من اول الفاتحۃ الیٰ اخرسورۃ الناس ( 1/39،40 مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت ) 

مناہل العرفان میں ہے :

والکلام اللفظی بالمعنی الحاصل بالمصدر ھو تلک الکلمات المنطووۃ التی ھی کیفیۃ فی الصوت الحسی وکلام ھذین ظاھرلایحتاج الی التوضیح ۔

القرآن فی الاصطلاح، ط ) 

اپنا تبصرہ بھیجیں