والدہ! کیا مسجد اقصٰی صرف ہماری ہے؟
نہیں بیٹا! مسجد اقصیٰ ہر مسلمان کا ہے۔دنیا کے ہر مسلمان کا اس پر اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا ،ہر مسلمان پر اس کی حفاظت کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہمارے لیے ضروری ہے۔
والدہ! پھر ہم اکیلے ہی کیوں لڑتے ہیں؟کیا دنیا میں مسلمان کم ہیں؟
بیٹا دنیا میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ماشاء اللہ! لیکن……..!
لیکن کیا…….؟ والدہ! پھر وہ القدس کی حفاظت کے لیے کیوں نہیں آتے؟
لیکن! باقی دنیا کے مسلمان پابندِ سلاسل ہیں بیٹا!
ان کی زبانوں پر تالے پڑے ہیں، آنکھوں پر پردے ڈال دئیے گئے ہیں اور کانوں میں روئی ٹھونس دی گئی ہے۔
وہ ذہنی غلامی کے سلال میں قید ہیں۔
چاہے ان کے پاس قدرتی وسائل کے خزانے ہوں یا دنیا کی بہترین فوج ہو، اسلحہ کی قوت ہو یا دولت کے انبار ہوں۔
وہ نہ بول سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں۔(بے چارے)
لیکن بیٹا ہم پر امید ہیں ،ایک دن آئے گا ہم سب مسلمان ایک ہو کر القدس کو چھڑائیں گے انشاء اللہ!
اللہ ہمارے ساتھ ہے،ہم ہی نے القدس کی حفاظت کرنی ہے۔ انشاء اللہ!
عمر بیٹا! آپ نے بھی اپنے بابا کی طرح مسجد اقصٰی کا محافظ بننا ہے، آپ نے بھی لڑنا ہے اور اپنے بابا سے جا کر جنت میں ملنا ہے۔
والدہ ! عمر کا آپ سے وعدہ ہے، عمر عمر بنے گا۔ میں بھی بابا کی طرح مجاہد بنوں گا،القدس کے ناموس پر جام شہادت پیوں گا۔ انشاء اللہ!
فاطمہ ننھے عمر کے ماتھے پر نم آنکھوں سے بوسہ دیتے ہوئے:
“ان شاءاللہ! میرا شیر بیٹا۔ اب سو جاؤ۔ان شاءاللّٰہ! صبح کی روشنی جلد ہی نمودار ہونے کو ہے۔۔۔
سنحوض معارکنا معھم
وسنمض جموع نردعھم
ونعید الحق المغتصب
و بکل القوۃ ندفعھم
✍🏻 بنت ممتاز