عورت کیلئےشوہرکی بات مانناضروری ہےیاساس کی بات مانناضروری ہے

فتویٰ نمبر:558

سوال:محترم ومکرم استاد صاحب   مدظلہم العالیہ!   

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

                              استاد صاحب چند مسئلےدریافت کرنےہیں:

(۱) اگرشوہراپنی بیوی کوگھریلوکام کاج کرنےسے(جوپانی سےکئےجاتےہیں مثلاًبرتن کپڑےوغیرہ دھونےسے)منع کردےبوجہ بیوی کی علالت کے،اوریہ کہے کہ یہ میراحکم ہےتم پراگرتم نےاس کی خلاف ورزی کی توتم نافرمان ہوگی ،اب اس بارےمیں کیاحکم ہےکہ عورت اگرساس کےکہنے پربرتن وغیرہ دھولےتوکیایہ حکم کی نافرمانی ہوگی ؟کس کےحکم کو ترجیح ہوگی آیاساس کےیاشوہرکے اگرکام نہ کرنےسےلڑائی وغیرہ کااندیشہ ہوتوکیا شوہر سے جھوٹ بول سکتی ہےکہ کام نہیں کیا ان تمام صورتوں میں کیاعورت گنہگارہوگی؟

(۲)  اگرکسی بڑےیاچھوٹےسےغلطی سےقرآن کریم گرجائے تواسکوکیاکرناچاہیےآیا کوئی چیزصدقہ کرےیاکیاکرے؟

(۳) اسی طرح ایک لڑکی جوکہ ذہناًبہت پریشان رہتی ہے اس کےعلاوہ اس کاکہنایہ ہےکہ اللہ تعالیٰ سےخوف بہت ہےمگراس سےمانگنےسےڈرتی ہوں اسی طرح نمازوں کی بھی بالکل پابندی نہیں جب دل چاہاپڑھ لی گھرمیں اگرچہ  ٹی وی نہیں ہےلیکن بچپن کی عادت کی وجہ سےزبان  پرہرقت گانےچڑھےرہتے ہیں  ایسی صورت  میں اسکوکس بات کی ترغیب دیناچاہیے

اسکی اصلاح کاکیاطریقہ ہے؟ ان سوالات کےمختصرًا جواب ارشاد فرمادیں ؟ جزاکم اللہ خیرا فقط والسلام 

الجواب حامدا   ومصلیا

            واضح رہےکہ اگرکوئی شوہراپنی بیوی کواپنی ذات یاکسی شخص سےمتعلق کسی بھی کام کاحکم دےتوعورت پرشوہرکی اطاعت واجب اورلازم ہے،(۱)حدیث شریف میں آتاہےکہ اگرشوہراپنی بیوی  کوایک  پہاڑی سےاترکردوسری پرچڑھنےکابےمقصدحکم بھی دےتو عورت پراسکی اطاعت وفرمانبرداری  لازم ہے۔

چنانچہ مشکوٰۃ شریف (2 / 242) میں ہے:

وعن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في نفر من المهاجرين والأنصار فجاء بعير فسجد له فقال أصحابه    يا رسول الله تسجد لك البهائم والشجر فنحن أحق أن نسجد لك . فقال : ” اعبدوا ربكم وأكرموا أخاكم ولو كنت آمر أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها ولو أمرها أن تنقل من جبل أصفر إلى جبل أسود ومن جبل أسود إلى جبل أبيض كان ينبغي لها أن تفعله ” . رواه أحمد

            البتہ اس اجتماعی زندگی میں بہت سےاموراوربہت سےمعاملات ایسےبھی ہوتےہیں جوشوہرکی طرف  ملاطفت ومحبت اورمشفقانہ اندازمیں بصورت ِحکم صادرہوتےہیں  جن کے کرنےسےبیشک شوہرکی  آنکھیں ٹھنڈی اوردل خوش ہوتاہے لیکن اس کی  حکم عدولی ان

معاملات  میں دل کی کدورت اورآپس کے بعد کاسبب بننے کےبجائےمزید قرب اوردلی عظمت  واہمیت کوپروان چڑھانےکاباعث بنتی ہے۔

            لہذاصورتِ مسئولہ میں اگرعورت پرشوہرکی طرف سے گھریلوکام کاج کی پابندی عائد کی گئی ہے اورعورت بوجہ ضرورت یابوجہ مصلحت شوہرکےممنوعہ کام کرلیتی ہے تویہ عورت نافرمانوں میں شمارنہ ہوگی،البتہ اگرکسی کام کےکرنےسےمرض بڑھنے کااندیشہ ہویاطویل ہونےکاخدشہ ہواورشوہرکوواقعۃ ً تکلیف اوراذیت ہوتی ہواوراسکا دل براہوتاہوتوحتیّ الوسع عورت پراسکی اطاعت واجب ہوگی اوراس کی  حکم عدولی نافرمانی میں شمارہوگی۔

تاہم اگرساس کےکہنے پربرتن دھوئےتواگرساس کویہ بات بتاکرمعاملہ بگڑنےاور گھرمیں ساس ،بہویاماں بیٹے میں فتنہ وفساد کااندیشہ نہ ہواورشوہرکادل اس کام کرنےکی وجہ سےاس سےبراہوتاہوتو پھر یہ شوہرکی نافرمانی ہوگی ورنہ نہیں

(۲)  شوہرکےحکم کوترجیح ہوگی ۔

(۳)عورت اپنی دینداری،گھرداری اوربلندکردارسےاپنےگھراورخاندان کوجنت نظیر بھی بناسکتی ہےاور اپنی دنیاداری ،کم ظرفی اورکینہ پروری کےذریعہ جہنم کدہ بھی بناسکتی ہے،

            لہذا مسئول عنہا صورت میں اس اندازاورطریقہ سےمعاملہ کرے کہ ساس سےبھی بات نہ بگڑے اورشوہربھی راضی رہے،لہذا اگرکام کرنیکی ضرورت پڑجائےتوبلاشبہ فتنہ سے بچنا زیادہ اہم اور زیادہ ضروری ہےاس لئےشوہرسےاس طرح کی بات بنادےکہ جھوٹ بھی نہ ہواور شوہربھی مطمئن ہو جائےاس طرح حکمت ،مصلحت سےچلنےمیں انشاءاللہ العزیز گناہ بھی نہیں ملےگااورگھرمیں بھی امن و محبت کاماحول رہےگااورساس اورشوہرکےدل میں بھی عظمت و محبت اجاگرہوکرپروان چڑھیگی۔

(۲)  صدقہ کرناواجب نہیں ہے،توبہ واستغفارکرکےآئندہ احتیاط برتیں ،دل کے اطمینان کیلئے صدقہ بھی کردیں توباعث اجروثواب اورقبولیتِ توبہ میں معین ہے۔

(۳) اللہ تعالی ٰ سےخوف وخشیت کاتقاضا یہ نہیں کہ اس سےمانگنےمیں ڈرمحسوس کیاجائے اوراس کے مقررکردہ فرائض  میں کوتاہی اورمنع کردہ چیزوں سےبچنےمیں غفلت برتی جائے،

اللہ تعالی ٰ سےخوف اور ڈرکاتقاضایہ ہےکہ اس کےمقررکردہ تمام عقائد واعمال کوبسروچشم تسلیم کرتےہوئے ان پرعمل کیا جائےاوراسکی منہیات سےآگ کی طرح اپنےآپکودوررکھا جائے(۲) 

اوراپنی ضروریات وحوائج کواس سے مانگاجائےاوراپنی گناہوں پر سچی ندامت کے ساتھ اس سےمعافی مانگی جائے(۳)

اوراپنی زبان کوبتکلف گانوں سےبچاکراللہ تعالیٰ شانہ کے ذکرسےتررکھاجائے

لہذا ان گناہوں میں مبتلالڑکی کوانہی باتوں کواچھی طرح سمجھایاجائے اوراپنی زندگی کوبھی اسی طرح بلند صفات وعادات میں ڈھال کراس کیلئےعملی نمونہ بن کراسکی اصلاح کی جائے۔

التخريج

(۱)حاشية ابن عابدين – (6 / 756)

وَحَقُّ الزَّوْجِ عَلَى الزَّوْجَةِ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا وَهُوَ أَنْ تُطِيعَهُ فِي كُلِّ مُبَاحٍ،

الموسوعة الفقهية الكويتية – (30 / 121)

حَقُّ الزَّوْجِ : عَلَى الزَّوْجَةِ مِنْ أَعْظَمِ الْحُقُوقِ ، بَل إِنَّ حَقَّهُ عَلَيْهَا أَعْظَمُ مِنْ حَقِّهَا عَلَيْهِ لِقَوْل اللَّهِ تَعَالَى:{ وَلَهُنَّ مِثْل الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَال عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ}قَال الْجَصَّاصُ:أَخْبَرَ اللَّهُ تَعَالَى فِي هَذِهِ الآْيَةِ أَنَّ لِكُل وَاحِدٍ مِنَ الزَّوْجَيْنِ عَلَى صَاحِبِهِ حَقًّا ، وَأَنَّ الزَّوْجَ مُخْتَصٌّ بِحَقٍّ لَهُ عَلَيْهَا لَيْسَ لَهَا عَلَيْهِ. وَقَال ابْنُ الْعَرَبِيِّ :هَذَا نَصٌّ فِي أَنَّهُ مُفَضَّلٌ عَلَيْهَا مُقَدَّمٌ فِي حُقُوقِ النِّكَاحِ فَوْقَهَا.وَلِقَوْل النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لأَِحَدٍ لأََمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا.

بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية – (6 / 98)

( وَمِنْهَا إيذَاءُ الزَّوْجَةِ ) قَوْلًا أَوْ فِعْلًا تَصْرِيحًا أَوْ تَعْرِيضًا وَكِنَايَةً ( زَوْجَهَا وَمُخَالَفَتُهَا إيَّاهُ ) فِيمَا لَا مَعْصِيَةَ فِيهِ ( وَعَدَمُ رِعَايَةِ حُقُوقِهِ ” ت ” عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا { لَوْ كُنْت آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ } سِوَى اللَّهِ تَعَالَى تَعْظِيمًا وَأَدَاءً لِحَقِّهِ{ لَأَمَرْت الزَّوْجَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا }لِأَنَّهُ غَايَةُ التَّعْظِيمِ وَنِهَايَةُ التَّكْرِيمِ ؛لِأَنَّ فِيهِ وَضْعَ أَشْرَفِ الْأَعْضَاءِ عَلَى أَخَسِّ الْأَشْيَاءِ وَهُوَ التُّرَابُ ، وَفِيهِ بَيَانُ امْتِنَاعِ السَّجْدَةِ لِغَيْرِهِ تَعَالَى ، وَتَأْكِيدُ حَقِّ الزَّوْجِ عَلَى الزَّوْجَةِ ،

(۲)أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير – (1 / 207)

 وجوب تقوى الله تعالى بفعل ما أمر وترك ما نهى عنه وزجر.                                          

تفسير آيات الأحكام – محمد علي سايس – (1 / 288)

 أمرنا أن نعبده ، والعبادة : المبالغة في الخضوع ، ويكون ذلك بفعل ما أمر اللّه به لمجرد أنه أمر به ، وترك ما نهى عنه لمجرد أنه نهى عنه ، سواء في ذلك أعمال القلوب – ومنها التوحيد – وأعمال الجوارح.

التفسير الوسيط ـ الزحيلى – (2 / 1764)

وأكد الله تعالى بشارة المؤمنين بالفلاح في الآخرة والدنيا ، بالفوز بكل خير ، والأمن من كل شر ، في الدنيا والآخرة ، فكل من يطيع الله ورسوله في كل ما أمر به وترك ما نهى عنه ، وخاف الله فيما مضى من ذنوبه ، واتقاه في مستقبل أيامه ، فأولئك هم الذين فازوا فوزا ساحقا ، في حياة الدنيا وحياة الآخرة.

(۳)قرآن کریم میں ہے:

{إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (222)} [البقرة : 222]

نوادر الأصول – (2 / 349)

عن أبي سعيد الأنصاري رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم التائب من الذنب كمن لا ذنب له والندم توبة التائب حبيب الله تعالى إن الله يحب التوابين، والحبيب يستر الحبيب ويحب زينه فإن بدا شين ستره فإذا أحب الله عبدا فأذنب ستره فصار كمن لا ذنب له فإن الذنب يدنس العبد والرجوع إلى الله تعالى بالتوبة يطهره لأن بالرجعة يصير في محل القربة منه ومحل القربة ينوره ويذهب دنسه

اپنا تبصرہ بھیجیں