عورت کا اعتکاف

سوال: کیا سب ائمہ کے نزدیک اعتکاف عورتوں کا گھر پر ہوتا ہے؟

مریم۔

کراچی

الجواب بعون الملک الوھاب

ائمہ اربعہ میں سے امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح مسجد میں اعتکاف کریں۔امام شافعی ؒ کا فرمانا ہے کہ عورتیں اور غلاموں پر چونکہ نماز باجماعت ،نماز جمعہ فرض نہیں لہٰذا وہ جہاں چاہے اعتکاف بیٹھ سکتے ہیں؛جبکہ امام ابو حنیفہ،امام ابو یوسف ،امام محمد اور امام زفر رحمھم اللہ علیھم فرماتے ہیں کہ عورت کے لیے اگر چہ محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا جائز تو ہے ؛لیکن اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے ۔(مستفاد:تفسیر معالم العرفان:3/110)

امام شافعی نے عورت کےمسجد میں اعتکاف کو مکروہ قرار دیا ہے (الموسوعة الفقهية الکویتیة جلد 5 صفحہ 210)۔

احناف میں احمد بن محمد بن اسماعیل امام طحطاوی (متوفی:1231ھ) نے نماز پر قیاس کرتے ہوئے عورتوں کا مسجد میں اعتکاف مکروہ تحریمی قرار دیا ۔

“وفی الطحطاوی (۴۷۳/۱): قولہ یکرہ فی المسجد الا انہ جائز بلا خلاف بین اصحابنا وظاھر مافی النھایۃ انھا کراھۃ تنزیہ وینبغی علی قیاس مامر من ان المختار منعھن من الخروج فی الصلوات کلھا ان لا یتردد فی منعھن فی الاعتکاف فی المسجد۔”

“وفیہ ایضاً(۲۴۵/۱): وما فی الدرالمنتقی یوافق ماھنا حیث قال وفی الکافی وغیرہ اما فی زماننا فالمفتی بہ منع الکل فی الکل حتی فی الوعظ ونحوہ (قولہ لفساد الزمان ولذا قالت عائشۃؓ للنساء حین شکون الیھا من عمر لنھیہ لھن عن الخروج الی المساجد لو علم النبی ﷺ ماعلم عمرؓ ما اذن۔”

معروف عرب عالم شیخ محمد بن صالح العثيمين بهی فرماتے ہیں کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا باعثِ فتنہ ہے۔(الشرح الممتع علی زاد المستقنع جلد 6 صفحہ 510)

آج کل کے دور میں علمائےکرام عورت کے مسجد کے اعتکاف کے بارے میں مطلقاًکراہت تحریمی کا فتوی دیتے ہیں۔

(امْرَأَةٍ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا) وَيُكْرَهُ فِي الْمَسْجِدِ، وَلَا يَصِحُّ فِي غَيْرِ مَوْضِعِ صَلَاتِهَا مِنْ بَيْتِهَا كَمَا إذَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَسْجِدٌ وَلَا تَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهَا إذَا اعْتَكَفَتْ فِيهِ۔ [رد المحتار] (قَوْلُهُ ذُكِرَ) قَيَّدَ بِهِ وَإِنْ تَحَقَّقَ اعْتِكَافُ الْمَرْأَةِ فِي الْمَسْجِدِ مَيْلًا إلَى تَعْرِيفِ الِاعْتِكَافِ الْمَطْلُوبِ لِأَنَّ اعْتِكَافَ الْمَرْأَةِ فِيهِ مَكْرُوهٌ كَمَا يَأْتِي بَلْ ظَاهِرُ مَا فِي غَايَةِ الْبَيَانِ أَنَّ ظَاهِرَ الرِّوَايَةِ عَدَمُ صِحَّتِهِ لَكِنْ صَرَّحَ فِي غَايَةِ الْبَيَانِ بِأَنَّهُ صَحِيحٌ بِلَا خِلَافٍ كَمَا فِي الْبَحْرِ وَقَدْ يُقَالُ قَيَّدَ بِهِ نَظَرًا إلَى شَرْطِيَّةِ مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ فَإِنَّهُ شَرْطٌ لِاعْتِكَافِ الرَّجُلِ فَقَطْ وَالْأَوَّلُ أَوْلَى لِقَوْلِهِ بَعْدَهُ أَوْ امْرَأَةٍ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا تَأَمَّلْ”

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار):2/440)

حاصل کلام یہ ہے کہ عورت کا مسجد میں اعتکاف باعثِ فتنہ اور مکروہ ہے ۔لہٰذا عورت کو چاہیے کہ وہ مسجد عرفی کے بجائے گھر کی مسجد میں اعتکاف کریں۔

فقط ۔و اللہ تعالی اعلم بالصواب

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی

20 شعبان،1439ھ/7 مئی،2018ء

اپنا تبصرہ بھیجیں