عورت کا عدت گھر کی اوپری منزل میں اپنی والدہ کے گھر گزارنا

سوال: میرے ماموں کا انتقال ہوا ہے

ان کی بیوہ کو عدت گزارنی ہے، وہ اپنے گھر میں ہی ہے اوپر والے گھر اپنی والدہ اور بہنوں کو کرایے پہ دیا ہے اس میں ان کی والدہ دو شادی شدہ بہنیں ہیں ایک بہن کا بیٹا ہے ایک بہن کی دو بیٹیاں ہیں ایک غیر شادی شدہ بھاٸی رہتے ہیں اس میں کوٸی بھی نامحرم رشتےدار نہیں ہیں

اب مسئلہ یہ ہے

ان کی دونوں بہنیں جاب کرتی ہیں گھر میں صرف والدہ ہوتی ہیں جوکے بیمار ہیں ڈاکٹر نے ان کو زیادہ سیڑیاں استعمال کرنے سے منع کیا ہے

اب وہ ماموں کی بہو کو اپنے پورشن میں عدت گزار نے کا چاہ رہی ہیں ان کے لیے آسانی ہوجائے گی کھانا پکانا سب ان کو ہی کرنا ہے نیچے ماموں کے پورشن میں رہنا مشکل ہے اگر کوٸی آتا ہے ملنے تو ان کو پریشانی ہوگی کیونکہ بیوہ تو عدت میں دروازے پہ نہیں جائے سکتی ہیں

گھر میرے ماموں کا ہی ہے۔

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ عدتِ وفات عورت کا اپنے شوہر کے گھر میں گزارنا شرعاً واجب ہے۔ بغیر کسی شرعی عذر کے شوہر کے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ عدت گزارنا جائز نہیں۔لہذا مذکورہ صورت میں اگر اوپر جانے کا راستہ گھر کی چار دیواری کے اندر ہی ہو اور والدہ کے گھر کسی نامحرم (بہنوٸی) کی رہاٸش نہ ہو تو اوپر کی منزل میں اپنی والدہ کے گھر عدت گزارنے کی گنجاٸش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

١ ۔۔۔”(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو ينهدم المنزل أو تخاف انهدامه، أو تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه”.

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين ,رد المحتار, ٣/ ٥٣٦):

٢ ۔۔۔۔ “وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر – رضي الله عنه – نقل علي – رضي الله عنه – أم كلثوم – رضي الله عنها – لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة – رضي الله عنها – نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر – رضي الله عنه – لما قتل طلحة – رضي الله عنه – فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.

٣۔۔۔۔ بخلاف ما إذا کانت لہ فإن لہا أن تخرج إلیہا وتبیت في أي منزل شاءت؛ لأنہا تضاف إلیہا بالسکنیٰ۔

( فی الشامیہ ۔ج:٣ ص:٥٣٥)

٤ ۔۔۔۔ علی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت کذا فی الکافی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ للمعتدۃ ان تخرج من بیتھا الی صحن الدار، وتبیت فی ای منزل شاءت، الا ان یکون فی الدار منازل لغیرہ فلا تخرج من بیتھا الی تلک المنازل۔

( کذا فی الھندیة ج:١ ص: ٥٨٧۔ الباب الرابع عشر فی الحداد)

٥۔۔۔۔ للمعتدۃ أن تخرج من بیتہا إلی صحن الدار وتبیت في أيِّ منزل شاء ت إلا أن یکون في الدار منازل لغیرہ، بخلاف ما إذا کانت المنازل لہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ / فصل في الحداد ۱؍۵۳۵ زکریا)

فقط واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں