عورت کا مسجد میں امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم

فتویٰ نمبر:5032

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

! کیا عورت امام کے پیچھے جماعت سے نماز پڑھ سکتی ہے جبکہ یہ معلوم نہ ہو کہ امام صاحب نے عورتوں کی جماعت کی نیت کی ہے یا نہیں؟اور امام شافعی مذہب کے بھی ہوسکتے ہیں اور اہل حدیث بھی 

والسلام

الجواب حامداو مصليا

عام نمازوں میں (جن میں مجمع زیادہ نہیں ہوتا) عورتوں کی نماز باجماعت میں شمولیت اسی وقت درست ہوگی جب کہ امام (عموماً یا خصوصاً) ان کی اقتداء کی بھی نیت کرے، اگر امام نے عورتوں کی نیت نہیں کی تو مقتدی عورتوں کی نماز درست نہ ہوگی؛ البتہ جمعہ وعیدین (یا جہاں مجمع کثیر ہو مثلاً حرمین شریفین) میں امام کی نیت کے بغیر بھی عورتوں کی اقتداء درست ہے؛ لیکن عورتوں کے لئے جماعت سے نماز پڑھنے کے مقابلہ میں اپنے گھروں میں ہی تنہا نماز پڑھنا افضل ہے، جیساکہ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔. “ولا یصح الاقتداءبامام الا بنيةوتصح الامامة بدون نيتها الا إذا صلى نساءفان اقتداءهن به بلا نية الامام للامامةغير صحيح. واستثنى بعضهم الجمعةوالعيدين وهو الصحيح وتحته فى الحموى ويصح الاقتداء المرأة بالرجل فى صلوة الجمعة وان لم ينو امامتها وكذلك العيدين وهو الأصح الخ ( الاشباہ والنظائر / ٣٥)(انوارمناسك/٣٩٦)

ولا یصیر إماما للنساء إلا بالنیۃ ہٰکذا في المحیط۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۶۶، شامي ۱؍۳۹۴ نعمانیۃ، ۲؍۱۰۴ زکریا)

حنفی مسلک والا شافعی ،مالکی ،حنبلی اور صحیح العقیدہ اہل حدیث کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے ،البتہ جو لوگ فجر میں رکوع سے اٹھ کر قنوت نازلہ پڑھتے ہیں حنفی اس وقت ہاتھ نہ اٹھائیں ۔

حنفی مقتدی کا شافعی امام کے پیچھے وتر پڑھنا صحیح ہے،اگر شافعی امام نے تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھی اور رکوع کے بعد قنوت پڑھا تو حنفی مقتدی بھی رکوع کے بعد قنوت پڑھے،بعض صحابہ ؓ کا یہی عمل تھا،اس لئے حنفی مقتدی کی نماز میں کچھ نقصان نہیں آتا۔امام کی متابعت ضروری ہے،برخلاف قنوت فجر کے کہ وہ دائمی طور پر ثابت و منقول نہ ہونے کی بنا پر بدعت ہے،اس لئے حنفی مقتدی کو خاموش رہنا ضروری ہے،امام کی اتباع غیر مشروع میں جائز نہیں۔۔ 

و اقتدی حنفي بشافعي في الوتر وسلم ذلک الشافعي الإمام علی الشفع الأول علی وفق مذہبہ، ثم أتم الوتر صح وتر الحنفي عند أبي بکر الرازي وابن وہبان۔ (معارف السنن، أبواب الوتر، مسألۃ اقتداء الحنفي بالشافعي في الوتر، اشرفیہ دیوبند ۴/ ۱۷۰) ثم أن حکم الحاکم رافع للخلاف فی الأمور المجتہد فیہا، فلو وقع التقنین عملا بمذہب المالکیۃ أو الحنابلۃ جاز من ہذا الوجہ۔ (تکملۃ فتح الملہم، کتاب البیوع، باب بیع البعیر واستثناء رکوبہ، الأحادیث الواردۃ في الباب، أشرفیہ دیوبند ۱/ ۶۳۶) رسائل الارکان ص ۱۰۸، ۱؎) و اللہ تعالی اعلم

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

قمری تاریخ:29شوال 1440

عیسوی تاریخ:3 جولائی 2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

➖➖➖➖➖➖➖➖

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں