عورت کوحق طلاق دینے کا کیامطلب ہے؟

سوال : عورت کو حق طلاق دینے کا مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کو طلاق دے سکتی ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز حق طلاق کی مدت کیا ہے ؟

الجواب ملهم الصواب :

واضح رہے کہ طلاق دینے کا حق الله تعالٰی نے شوہر کو دیا ہے،بیوی اپنے اوپر طلاق واقع نہیں کرسکتی، البتہ اگر خود مرد کی طرف سے عورت کو طلاق دینے کا حق تفویض کردیا گیا ہو تو خاص اس صورت میں عورت خود کو طلاق دینا چاہے تو اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے طلاق واقع کرسکتی ہے ۔ کبھی یہ اختیار صرف اس مجلس تک محدود رہتا ہے جس مجلس میں اختیار دیا گیا تھا اور کبھی یہ اختیار ہر وقت حاصل رہتا ہے۔

اسے شرعی اصطلاح میں” تفویضِ طلاق”کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ عورت خود اپنی ذات پراس حق کو استعمال کرتے ہوئے طلاق کو واقع کرسکتی ہے ، یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بیوی نے شوہر کوطلاق دے دی۔

تفویضِ طلاق کی چند شرائط ہیں،اگر کسی کا اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہو تو پہلے کسی مستند دارالافتاء سے معلوم کرلیا جائے۔

=======================

حوالہ جات

1۔ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا

(سورةالاحزاب 29 )

ترجمہ:اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں 

اس آیت میں حضرت جابر رضی الله عنہ سے منقول ایک واقعہ بھی ہے جس میں رسول الله صلى الله علیه وسلم سے ازواج مطهرات نے جمع ہو کرنان نفقه بڑھانے کا مطالبہ کیا یہ مطالبہ ہی تخییر طلاق کا سبب بنا

(معارف القرآن : ج 7 / ص 127 )

2.۔الفصل الاول في الاختيار : اداقال لامرا ته : اختاری ینوی بذلك الطلاق اوقال لها : طلقی نفسك فلها أن تطلق نفسها مادامت في مجلسها ذلك وان تطاول يوما أو اکثر مالم تقم منه او تاخذ في عمل آخر وكذا إذا قام هو من المجلس خالامو في يدها مادامت في مجلسها و ليس للزوج ان يرجع في ذلك ولا ينها ها عما جعل اليها ولا يفسخ كذا في الجوهرة النيره ،

(الفتاوی الهندية : ج ۱ / ص 423 مکتبه قدیمی کتب خانه )

3 ۔ والفاظ التفويض ثلاثه : تخير ، وأمر بید ، ومشيئه .

( قال لها اختاری او امرك بيدك ينوي ) تفویض (الطلاق) لانها كناية خلا یعملان بلانية …

( رد المحتار على در المختار : ج 4 / ص 540 )

4۔ اگر تفویض سے مراد یہ ہے کہ اس نے عورت کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا اختیاردے دیا تو معاملہ عورت کے ہاتھ میں ہے ، اگر وہ اپنے نفس پر طلاق واقع کرلے تو طلاق واقع ہو جائے گی

(فتاوی عثمانی : ج 2 / ص 402 )

5….. ایسی خواتین جنھوں نے نکاح کے وقت تفویض طلاق کے طریقے کو اختیار نہ کیا ہو، اگر بعد میں کسی شدید مجبوری کے تحت شوہر سے گلو خلاصی حاصل کرنا چاہیں، مثلاً شوہر اتنا ظالم ہو کہ نہ نفقہ دیتا ہو نہ آباد کرتا ہو۔ یا وہ پاگل ہو جائے یا مفقود الخبر ہو جائے یا نامرد ہو اور از خود طلاق یا خلع پر آمادہ نہ ہو ، تو اصل حنفی مسلک میں ایسی عورتوں کے لیے شدید مشکلات ہیں، خاص طور پر اُن مقامات پر جہاں شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والا کوئی قاضی موجودنہ ہو، ایسی عورتوں کے لیے اصل حنفی مسلک میں شوہر سے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے… حضرت حکیم الامت(مولانا تھانوی) قدس سرہ نے ایسے بیشتر مسائل میں مالکی مذہب کے مطابق فتوی دیا ہے۔‘‘

( الحيلة الناجزه : ص 9 – 10 دارالاشاعت )

واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں