ایک بار بچے کو دودھ پلانے سے رضاعت کا ثبوت

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.

سوال: دو بہنوں کی شادی دو بھائیوں سے ہوئی ۔بڑی بہن کے ایک بیٹے کو چھوٹی بہن نے دودھ پلایا ۔تین سال قبل چھوٹی بہن کی ایک بیٹی سے اسی لڑکے کی منگنی کر دی گئی۔۔چھوٹی بہن دودھ پلانے کا کہتی ہے اور کہتی ہے کہ ان دونوں بچوں کا رشتہ نہیں ہو سکتا مگر گھر کے بڑے بوڑھے نہیں مانتے کہتے ہیں ایک مرتبہ دودھ پلانے سے کچھ نہیں ہوتا ۔کیا بڑے بوڑھوں کا کہنا درست ہے یا چھوٹی بہن کا؟
شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے
واقعہ اس طرح تھا کہ بڑی بہن بیمار تھیں اور اسپتال میں داخل تھیں۔ بچہ روتا رہا اور فیڈر بھی نہیں لے رہا تھا۔چھوٹی بہن کے بچی کی ولادت ہوئی تھی وہ بچی اس وقت دو ماہ کی تھی ۔ ساس کے کہنے پر چھوٹی بہن نے اس بچے کو دودھ پلایا جب بڑی بہن ٹھیک ہوگئی تو پلانا چھوڑ دیا ۔تقریبا تین دن پلایا ہوگا ۔ساس اس بات کو جانتی تھی مگر اب وہ حیات نہیں ہیں ۔ اس وقت ساس نے سب سے یہ بات چھپانے کو کہا تھا ۔
چھوٹی بہن کے شوہر کو بھی دودھ پلانے کا علم ہے لیکن وہ بھی بڑوں کی باتوں میں آگیا ہے کیونکہ دین کی باتوں کو زیادہ نہیں جانتا ۔

تنقیح :
دودھ کس عمر میں پلایا؟
جواب تنقیح:
بچے کی عمر چھ ماہ تھی۔

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته

الجواب باسم ملهم الصواب
واضح رہے کہ مدت رضاعت (جو دو سال ہے) کے اندر بچے نے کسی عورت کا دودھ پی لیا تو اس سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے ۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دودھ کم پیا یا زیادہ۔
مذکورہ صورت میں چھوٹی بہںن اپنی بیٹی اور رضاعی بیٹے کو اعتماد میں لیں۔انھیں یقین دلائیں کہ واقعتاً دودھ پلایا ہے تاکہ وہ اس نکاح سے رک جائیں۔

**********
حوالہ جات :

1۔لو كانت أم البنات أرضعت أحد البنين وأم البنين أرضعت إحدى البنات لم يكن للابن المرتضع من أم البنات أن يتزوج واحدة منهن وكان لإخوته أن يتزوجوا بنات الأخرى إلا الابنة التي أرضعتها أمهم وحدها لأنها أختهم من الرضاعة۔۔
(ردالمحتار على الدر المختار::4 /410/411)
***
2۔’’قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية. قال في الينابيع. والقليل مفسر بما يعلم أنه وصل إلى الجوف كذا في السراج الوهاج… يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة.”
( فتاوی ھندیہ:: 1/ 343_342)۔
 ****
3۔”قال (قليل الرضاع وكثيره سواء إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم) وفي الشرع: مص الرضيع اللبن من ثدي الآدمية في وقت مخصوصأي مدة الرضاع المختلف في تقديرها (قوله قليل الرضاع وكثيره سواء إذا تحقق في مدة الرضاع تعلق به التحريم).”
(فتح القدیر :3 /438)
***
4۔”قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية. قال في الينابيع: والقليل مفسر بما يعلم أنه وصل إلى الجوف كذا في السراج الوهاج.”
(فتاوی عالمگیری:1 /342)
*****
5۔”ثم اختلف العلماء في المدة التي تثبت فيها حرمة الرضاع ، فقدر أبو حنيفة رحمه الله تعالى بثلاثين شهراً وأبو يوسف ومحمد – رحمهما الله تعالى – قدرا ذلك بحولين وزفر قدر ذلك بثلاث سنين،
(المبسوط للسرخسی:: 6 /75_ 76)
*****
6۔ سالم نے مدت رضاعت (دو سال کی عمر کے اندر) میں ماجدہ کا دودھ پیا ہو تو ماجدہ سالم کی رضاعی ماں ہوگئی، اور ماجدہ کا شوہر اس کا رضاعی باپ اور ماجدہ کی تمام اولاد چاہے سالم کو دودھ پلانے کے زمانے کی ہو یا اس سے پہلے یا اس کے کئی سالوں کے بعد کی ہو وہ سب سالم کے رضاعی بھائی بہن ہیں۔چاہے ماجدہ نے ان کو دودھ پلایا ہو یا نہ پلایا ہو اور ان سب کے درمیان نکاح حرام ہے.
(فتاوى رحیمیہ، حصہ ہشتم : 231/3 )
*****
7۔جب بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا تو وہ عورت اس کی ماں بن گئی اور اس انا کا شوہر جس کے بچے کا یہ دودھ ہے،اس بچے کا باپ ہو گیا اور اس کی اولاد اس کی دودھ شریک بہن بھائی ہو گئے اور نکاح حرام ہو گیا۔۔ جو رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہے وہ رشتے دودھ کہ اعتبار سے بھی حرام ہو جاتے ہیں …….
(بہشتی زیور :287/4)

واللہ سبحانہ اعلم

21 شوال 1444ھ
11 مئی، 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں