ایک بیڈ پر دو بہنوں کا سونا

سوال : باجی ایک سوال تھا کسی نے کہا کہ دو بہنوں کا ڈبل بیڈ پہ سونے کی ہمارے دین میں اجازت نہیں ہے سنگل بیڈ ہونے چاہیے دو بہنوں کا روم میں بھی کیا یہ بات ٹھیک ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب
واضح رہے کہ قریب البلوغ اور بالغ لڑکے اور لڑکیوں کو ایک بستر اور ایک لحاف میں سونا حدیث کی رو سے مطلقاً منع ہے ،صرف زن وشوہر کے لیے اس کی اجازت ہے اور کسی کے لیے نہیں ہے –
چنانچہ حدیث شریف میں ہے :
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں ( اور نہ پڑھیں) تو انھیں اس پر مارو اور ان کے بستر جدا کردو “۰
لہذا صورت مسئلہ میں اگر بیڈ بڑا ہو اور چادر بھی الگ ہو تو دونوں بہنوں کا ایک ساتھ سونے میں حرج نہیں –
___________
حوالہ جات :

1 : قال رسول اللہ ﷺ : “مرو اولادکم بالصلاۃ وھم ابناء سبع سنین واضربوھم علیھا وھم ابناء عشر سنین وفرقوا بینھم فی المضاجع “۰
( ابو دادؤد شریف : 495 )

ترجمہ : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہوجائیں ( اور نہ پڑھیں) تو انھیں اس پر مارو اور ان کے بستر جدا کردو “۰

2: ( بینھم فی المضاجع ) ای : المراقد قال المناوی فی “فتح القدیر شرح الجامع الصغیر “ای فرقوا بین اولادکم فی مضاجعھم التی ینامون فیھا اذا بلغوا عشرا حذرا من غوائل الشھوۃ وان کن اخوات ٠

( عون المعبود شرح ابی داؤد : 2/133 )

3 : قال الملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی : امر من التفریق” بینھم ” ای بین البنین والبنات علی ما ھو الظاھر ۰۰۰۰۰۰۰۰۰ قال ابن الحجر: بھذا الحدیث اخذ ائمتنا، فقالوا یجب ان یفرق بین الاخوۃ والاخوات فلا یجوز حنیئذ تمکین ابنین من الاجتماع فی مضجع واحد والظاھر ان قولہ فلا یجوز الخ ۰۰۰۰۰۰۰۰ والفرق بینھم فی المضاجع فی الطفولیۃ تأدیبا ومحافظۃ لامر اللہ تعالی ۰
( مرقاۃ المفاتیح : 2/257 )

4 : ”وإذا بلغ الصبي أو الصبية عشر سنين يجب التفريق بينهما بين أخيه وأخته وأمه وأبيه في المضجع، لقوله – عليه الصلاة والسلام – «‌وفرقوا ‌بينهم في المضاجع وهم أبناء عشر۔
وفي الرد:”( قوله: بين أخيه وأخته وأمه وأبيه) … وفي البزازية: إذا بلغ الصبي عشرا لا ينام مع أمه وأخته وامرأة إلا بامرأته أو جاريته اهـ فالمراد التفريق بينهما عند النوم خوفا من الوقوع في المحذور، فإن الولد إذا بلغ عشرا عقل الجماع ولا ديانة له ترده، فربما وقع على أخته أو أمه، فإن النوم وقت راحة مهيج للشهوة وترتفع فيه الثياب عن العورة من الفريقين، فيؤدي إلى المحظور وإلى المضاجعة المحرمة، خصوصا في أبناء هذا الزمان فإنهم يعرفون الفسق أكثر من الكبار …وكذا لا يترك الصبي ينام مع رجل أو امرأة أجنبيين خوفا من الفتنة، ولا سيما إذا كان صبيحا، فإنه وإن لم يحصل في تلك النومة شيء، فيتعلق به قلب الرجل أو المرأة، فتحصل الفتنة بعد حين، فلله در هذا الشرع الطاهر، فقد حسم مادة الفساد، ومن لم يحط في الأمور يقع في المحذور، وفي المثل: لا تسلم الجرة في كل مرة۔“
( الدر المختار مع ردالمحتار : كتاب الحظر والإباحة، ‌‌باب الاستبراء : 9/549 )

5 : دس سال یا اس سے زیادہ عمر کے دو شخصوں کو خواہ دونوں مرد ہوں یا دونوں عورتیں یا ایک مرد اور ایک عورت فراش واحد پر سونا جائز نہیں ، خواہ ایک شخص ایک جانب ہو اور دوسرا دوسری جانب جب کہ ان کے درمیان کوئی کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو-
البتہ لڑکا اپنے والد کے ساتھ اور لڑکی اپنی والدہ کے ساتھ سو سکتی ہے ،لمبی چٹائی اور بڑا پلنگ فراش واحد کے حکم میں نہیں ،ہاں اتنے مل کر سونا کہ دیکھنے والے کو فراش واحد پر سونا معلوم ہو، جائز نہیں –
( احسن الفتاوی : 8/171 )
واللہ اعلم بالصواب
7 نومبر 2022
11 ربیع الثانی 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں