اعتکاف میں غسل کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں

کہ جو آدمی اعتکاف میں ہو تو کیا غسل واجب کے علاوہ وہ غسل کرنے کے لیے نکل سکتا ہے کہ نہیں مفتی عبدالروف صاحب کی ایک کتاب میں پڑھ رہاتھا کہ اگر پیشاب کی حاجت ہو اور واپسی پر بجائے وضو کے غسل کر لے تو اسکی گنجائش ہے۔ لیکن مفتی تقی عثمانی صاحب کے ایک درس بخاری میں سن رہا تھاانہوں نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا آپ لوگوں سے رہنمائی کی درخواست ہے اور برائے کرم جواب اعتکاف کے دنوں سے پہلے ارسال فرمائے گا

بسم الله الرحمن الرحیم

الجواب حامدا ومصلیا

معتکف کیلئے محض صفائی یا ٹھنڈ ک حاصل کرنے کی غرض سے غسل کیلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں اور اسی طرح قضائے حاجت کے بعد غسل کیلئے ٹھہرنا بھی درست نہیں ہے، اور اگر دوران اعتکاف ٹھنڈ ک یا صفائی کیلئے نہانا ہو تو اس کی ایسی صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ جس سے پانی مسجد میں نہ گرے مثلا مسجد کے کنارے میں کسی ٹب میں بیٹھ کر نہالیں، یا مسجد کے کنارے پر اس طرح غسل کر ناممکن ہو کہ پانی مسجد سے باہر گرے تو ایسا بھی کر سکتے ہیں ۔ جہاں تک غسل جمعہ کا تعلق ہے تو چو نکہ فقہاء کرام نے معتکف کیلئے قضائے حاجت کی غرض سے نکلنے کے بعد راستہ میں مریض کی عیادت اور نماز جنازہ کی اجازت دی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ جب معتكف قضائے حاجت کو نکلے اور راستہ میں جلدی سے ضمنا کوئی عبادت ادا کرلے تو اس کی گنجائش ہے ، اسی بنیاد پر حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثما نی نے  امداد الاحکام میں تبعا جلدی سے غسل جمعہ کر لینے کا جواز بیان فرمایا ہے اس لئے اگر ان فتاوی پر عمل کر لیا جائے تو گنجائش معلوم ہوتی ہے، البتہ احتیاط بہتر ہے، بہتر صورت وہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ (کذافی، امداد الاحکام ج ۲، ص ۱۴۲، فتاوی محمودیہ ج١٠ ص ۲٤۳، فتاوی حضرت مفتی شفیع ج١ ص ۲۲ ، احکام اعتکاف)

مصنف ابن أبي شيبة – ترقيم عوامة – (3 / 87)

عن علي ، قال : إذا اعتكف الرجل فليشهد الجمعة ، وليعد المريض ، وليحضر الجنازة ، وليأت أهله ، وليأمرهم بالحاجة وهو

قائم

بدائع الصنائع – (2 / 114)

ولا يخرج لعيادة مريض ولا الصلاة جنازة لأنه لا ضرورة إلى الخروج لأن عيادة المريض ليست من الفرائض بل من الفضائل وصلاة الجنازة ليست بفرض عين بل فرض كفاية تسقط عنه بقيام الباقين بھا فلا يجوز إبطال الاعتكاف لأجلها وما روي عن النبي صلی الله عليه وسلم من الرخصة في عيادة المريض وصلاة الجنازة فقد قال أبو يوسف ذلك محمول عندنا على الاعتكاف الذي يتطوع به من غير إيجاب فله أن يخرج متى شاء ويجوز أن تحمل الر خصة على ما إذا كان خرج المعتكف لوجه مباح کحاجة الإنسان أو للجمعة ثم عاد مريضا أو صلى على جنازة من غير أن كان خروجه لذلك قصدا وذلك جائز

البحر الرائق – (2 / 325)

وأشار إلى أنه لو خرج لحاجة الإنسان ثم ذهب لعيادة المريض أو الصلاة الجنازة من غير أن يكون لذلك قصد فإنه جائز بخلاف ما إذا خرج لحاجة الإنسان ومكث بعد فراغه أنه ينتقض.

واللہ اعلم بالصواب

بنده فضل سبحانی عفی عنہ

دار الافتاء جامعہ دار العلوم کراچی

 ۱۳رمضان المبارک / ۱۴۳۴ھ

۲۳ جولائی/ ۲۰۱۳ء

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنے کے لیے لنک پرکلک کریں

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/590615717974344/

اپنا تبصرہ بھیجیں