بات چیت کرنے کے بعد سجدہ سہو کا حکم

فتویٰ نمبر:4042

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

اگر آپ کی نماز میں کوئی کمی رہ گئی ہو اور نماز مکمل کرلی تو اب آپ پہلے اس کمی کو پورا کریں گے مثلا ایک رکعت رہ گئی تو پہلے ایک رکعت ملائیں اور اس کے بعد سجدہ سہو کریں بھلے آپ نے سلام پھیر لیا تھا، بھلے آپ نے کسی سے بات کرلی تھی، آپ سجدہ سہو کرلیں آپ کی نماز درست ہو جائے گی۔

کیا مذکورہ بالا مسئلہ فقہ حنفی کے مطابق ہے؟؟

والسلام

الجواب حامدا و مصليا

 تمہید

نماز میں جتنی چیزیں واجب ہیں ان میں سے ایک واجب یا کئی واجب اگر بھولے سے رہ جائیں یا کسی فرض یا واجب میں تاخیر ہو جائے تو سجدہ سہو کرنا واجب ہوجاتا ہے، جس کے کرلینے سے نماز درست ہوجاتی ہے۔اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو وقت کے اندر اندر نماز پھر سے پڑھنا واجب ہوتا ہے. 

پھر سجدہ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ آخری رکعت میں فقط التحیات پڑھ کر داہنی طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے، پھر بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کے دونوں طرف سلام پھیرے اور نماز ختم کرے۔اور اگر سجدہ سہو بھول جائے اور سلام پھرنے کے بعد یاد آئے تو احناف کا مسلک یہ ہے کہ جب تک کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جو نماز کے منافی ہو، یعنی کسی سے بات چیت نہ کی ہو یا دنیاوی کوئی بات نہ کی ہو اور نہ ہی سینہ قبلہ کی طرف سے ابھی پھیرا ہو، بلکہ اسی جگہ بیٹھے بیٹھے اگر چہ ذکر و اذکار کرتا رہا ہو یا خاموش بیٹھا رہا ہو تو اب سجدہ سہو کر لیں، نماز درست ہو جائے گی. 

▪ اصل جواب ▪

سوال میں مذکور پوسٹ میں درج ذیل تفصیل بیان کرنا ضروری ہے: 

1۔اگر سلام پھیرنے کے بعد کسی کو یاد آئے کہ اس کی کوئی رکعت رہ گئی تھی یا ایک سجدہ یا رکوع رہ گیا تھا یعنی نماز کا کوئی فرض یا رکن رہ گیا تھا تو کیونکہ سلام پھیر چکے ہیں لہذا سجدہ سہو کرنے سے نماز درست نہ ہو گی بلکہ وہ نماز سرے سے نہ ہوگی، اس نماز کو از سر نو پڑھنا ضروری ہے۔

2۔ اگر نماز کے ارکان اور فرائض میں کوئی کمی بیشی ہو گئی ہے اور سلام سے پہلے ہی اس کمی کو پورا کر دیا یا نماز کے واجبات میں سے کوئی کمی بیشی ہوئی جس کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم ہو گیا تھا،لیکن سجدہ سہو کرنا یاد نہ رہا ،یہاں تک کہ سلام پھیر لیا ،سلام کے بعد یاد آیا تو جب تک نماز کے منافی کوئی عمل نہیں کیا اور اسی جگہ بیٹھے بیٹھے ذکر و اذکار کرتا رہا یا خاموش بیٹھا رہا تو اب یاد آنے کے بعد سجدہ سہو کرلے، نماز درست ہو جائے گی ۔

◼”یجب سجدتان بتشھد و تسلیم لترك واجب بتقديم أو تاخير أو زيادة أو نقص (أو تكرار) سهوا”

(شرح التنوير: 773/1) 

◼”ولا يجبر ترك الفرض بسجود السهو، لأن ترك الفرض مبطل للصلاة أصلاً فلو سها عن ركن من أركان الصلاة أعاده”

(فقه العبادات على المذهب الحنفى:97)

◼”ویسجد للسھو ولو مع سلامه للقطع ما لم يتحول عن القبلة أو يتكلم ما دام فى المسجد”

(شرح التنوير:786/1)

◼”كيفيته ان يكبر بعد سلامه الاول ويخر ساجداً ويسبح فى سجوده، ثم يفعل ثانياً كذالك، ثم يتشهد ثانيا، ثم يسلم. كذا فى المحيط وياتى بالصلوة على النبي صلى الله عليه وسلم والدعاء فى قعدة السهو هو الصحيح”

(فتاوى الهندية:80/1)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:4جمادی الثانی1440ھ

عیسوی تاریخ:11فروری2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں