بچہ گود لینا جائز ہے یا نہیں؟

فتویٰ نمبر:5038

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاتة

بچہ گود لینے کے بارے میں تفصیلی ہدایات چاہیں۔

1. کیا کسی بچے یا بچی کو گود لیا جا سکتا ہے اور اسے اپنی اولاد کی طرح پالا جا سکتا ہے اپنے ہی گھر میں؟

2. گود لیے ہوئے بچے کا پورا نام کس طرح رکھا جا سکتا ہے؟

3. کیا لڑکا گود لینا بہتر ہے یا لڑکی(پردے کے احکام کے مدد نظر) جبکہ ماں بیوی کے لیے دونوں بچہ اور بچی غیر ہوں؟

4. آج کل کچھ دوائیاں ایسی ہیں کہ جن کو کھانے سے عورت کو حمل ٹہرے بغیر ہی دودھ آتا ہے۔ کیا ان ادویات کا استعمال جائز ہے اور کیا ایسے دودھ پلانے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے؟

نیز کتنا دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہو جائے گی؟

برائے مہربانی رہنمائی فرما دیجئے۔

والسلام

الجواب حامداو مصليا

وعلیکم السلام ورحمۃ الله و برکاتہ!

1.جی ہاں!بچے کو گود لینا جائز ہے اور اس کو اپنے گھر میں اپنی اولاد کی طرح پالنا درست ہے۔

2.گود لیے ہوئے بچے کی نسبت اس کے والدین کی طرف کرنا ضروری ہے۔کاغذات میں ولدیت کے خانے میں بچے کے والد کا نام ہی لکھا جائے گا،البتہ سرپرست کے خانے میں گود لینے والا اپنا نام درج کروا سکتا ہے ۔

3.لڑکا یا لڑکی میں سے کسی کو بھی گود لیا جا سکتا ہے،البتہ پردے کے احکام کے پیش نظر، اگر عورت کے خاندان سے بچا گود لیا جائے جو کہ عورت کا محرم ہو تو لڑکا گود لینا بہتر ہے اور اگر مرد کے کسی رشتے دار سے بچا گود لیا جائے جو کہ مرد کے لیے محرم ہو تو لڑکی گود لینا بہتر ہے۔

اور اگر ایسابچہ گود لیا جائے جو میاں بیوی دونوں کے لیے نامحرم ہے تو لڑکے کی صورت میں عورت کی بہن یا بھابھی بچے کو دودھ پلا دیں اور لڑکی کی صورت میں شوہر کی بہن یا بھابھی دودھ پلا دیں،تاکہ حرمت رضاعت ثابت ہو اور بلوغت کے بعد پردے کا مسئلہ نہ بنے۔

4.اگر ایسی دوائیاں استعمال کی ہیں جن سے دودھ آ جاتا ہے اور لے پالک کو عورت دودھ پلا دیں تو اس سے رضاعت صرف عورت کے حق میں ثابت ہو جاتی ہے۔ایسی صورت میں لے پالک لڑکی ہے تو شوہر کی بہن اسے دودھ پلا دے تو وہ محرمات کے حکم میں آ جاۓ گی۔یا وہ عورت جب اس کی مدخولہ ہے تو بچی اس کی ربیبہ بن جائے گی۔اب اس کا یعنی عورت کے شوہر کا نکاح اس بچی کے ساتھ حرام ہو گا اور بلوغت کے بعد بچی کا پردہ بھی ان سے واجب نہیں ہوگا۔

(مستفاد:دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)

“بصورت مسئلہ اگر دوا اور انجکشن کے ذریعہ دودھ اترے اور بچی کو پلادے تو بچی سے رضاعت ثابت ہو جائیگی یعنی دودھ پلانے والی عورت بچی کی رضاعی ماں کہلاۓ گی،لیکن اس کا شوہر بچی کا رضاعی باپ نہیں بنے گا، کیونکہ وہ دودھ اترنے کا سبب نہیں بنا۔ ہاں وہ عورت اس کی مدخولہ ہو تو بچی اس کی ربیبہ بن جائے گی۔اس کا یعنی عورت کے شوہر کا نکاح اس بچی کے ساتھ حرام ہو گا۔

(فتاوی دار العلوم زکریا، ج4، ص 404 – زمزم )

قَوْلُهُ ( زَوْجُ مُرْضِعَةٍ لَبَنُهَا منه أَبٌ لِلرَّضِيعِ وَابْنُهُ أَخٌ وَبِنْتُهُ أُخْتٌ وَأَخُوهُ عَمٌّ وَأُخْتُهُ عَمَّةٌ )

البحر الرائق – ث (3/ 242) – دار المعرفة 

مزید یہ کہ گود لیا ہوا بچہ وارث نہیں بن سکتا ہے۔ “وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءكُمْ أَبْنَاءكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ”

    “ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا”

(سورةالاحزاب:4 ,5)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:6 ذی قعدہ 1440ھ

عیسوی تاریخ:9 جولائی 2019ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں