بینک کی طرف سے دیے گئے ہدیہ کا حکم

سوال: السلام علیکم!
ایک مسئلہ پوچھنا ہے کہ ایم سی بی بینک کے لوگو کی چھتری ہے اور یہ بینک والوں کی جانب سے حاجیوں کیلئے ہدیہ تھی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہم یہ استعمال کرسکتے ہیں، جبکہ جو استعمال کررہا ہے وہ صاحب نصاب بھی نہیں ہے۔
اس کا جواب جلد از جلد عنایت فرمادیجئے!
جزاک اللہ خیراً !
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
واضح رہے کہ شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر ایک مال حرام اور حلال سے مخلوط ہو اور حرام مال زیادہ ہو تو اسے تنخواہ یا ہدیہ لینا جائز نہیں،لیکن اگر حرام مال کم ہو تو جائز ہے۔ بینک کی صورت حال یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے،
1۔اصل سرمایہ
2۔ڈپازیٹرز کے پیسے
3۔سود اور حرام کاموں کی آمدنی
4۔جائز خدمات کی آمدنی
اس سارے مجموعے میں صرف نمبر 3 حرام ہے، باقی کو حرام نہیں کہا جاسکتا اور چونکہ ہر بینک میں نمبر1، نمبر 2 کی اکثریت ہوتی ہے، اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجموعے میں حرام غالب ہے،لہذا اس بنا پر بینک کی طرف سے دیے گئے ہدیہ کو استعمال میں لانا جائز ہے۔
(فتاوی عثمانی:395/3)
دلائل
1۔اھدی الی رجل شیئاً او اضافة، ان کان غالب ماله من الحلال، فلا باس به الا ان یعلم بانه حرام۔ وان کان الغالب ھو الحرام،ینبغی ان لایقبل الھدیة ولایاکل الطعام۔
( الفتاوی العالمگیریة: کتاب الکراھیة، باب الثانی عشر فی الھدایا والضیافات،342/5)
2۔ولا یجوز قبول ھدیة امراء الجور لان الغالب فی مالھم الحرمة الا اذا علم ان اکثر ماله حلال بان کان صاحب تجارة او زرع فلاباس به لان اموال الناس لاتخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب وکذا اکل طعامھم۔
(الفتاوی الھندیة:342/5)
3۔۔اذا کان غالب مال المھدی حلالاً، فلا باس بقبول ھدیته۔واکل ماله مالم یتبین انه من حرام۔وان کان غالب ماله الحرام، لایقبلھا ولایاکل، الا اذا قال: انه حلال ورثه او استقرضه۔
( شرح الاشباہ والنظائر: الفن الاول فی القواعد الکلیة،القاعدة الثانیة،309/1)
فقط واللہ اعلم
10/ اگست 2022ء
11/ محرم الحرام 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں