بینک میں ملازمت کرناکیساہے

 فتویٰ نمبر:499

سوال:کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں بینک کےایک بڑے آفیسرکےگھرمیں چوکیدارتھا انہوں نےمجھےفیصل بینک میں بطور Massanger(پیغامبر)لگوادیا یہ بات ملحوظ رہے کہ فیصل بینک  میں پہلےسودی نظام نہیں تھامگراب بینک نےسودی نظام شروع کردیاہے لہذا میرے لئےاس حالت میں بینک کی نوکری کرناکیسا ہے؟شریعت کی روشنی میں واضح فرماکراجرِدارین حاصل کریں ۔

الجواب حامداً ومصلیاً                                                                                                                  

واضح رہےکہ مروجہ بینکوں میں بالعموم سودی کاروباراورسودی لین دین ہی ہوتاہے اس لئےبینک کی ہرقسم کی ملازمت چوکیداری سب حرام ہےاوراس ملازمت کےعوض ملنے والی تنخواہ بھی شرعاًحرام ہے۔(۱)

لہذاصورتِ مسئولہ میں چونکہ بقول ِسائل مذکورہ بینک میں بھی سودی نظام ہی شروع ہوگیاہےاس لئےسائل کیلئےاس بینک کی ملازمت اوراسکی تنخواہ شرعاًحرام ہے،البتہ اگر سائل ضرورتمند ہےتوایکدم نوکری چھوڑنےکےبجائےمقدوربھرکوشش کرکےبقدرگذارہ کےکوئی جائزاورحلال نوکری تلاش کرےاورجیسےہی کوئی بندوبست ہوجائےاس حرام نوکری سےجان چھڑالے

التخريج

(۱)قرآن کریم میں ہے:

{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (2) } [المائدة : 2]

مجلة مجمع الفقه الإسلامي – (2 / 2190)

لا يجوز للمسلم أن يتعامل بالربا على كل حال وقد نهانا الله عنه وحذرنا عاقبته الوخيمة

اپنا تبصرہ بھیجیں