بینک میں مقررہ منافع کے وصول پر رقم جمع کرنا

سوال:السلام علیکم!

میری باجی کی ملتان شادی ہوئی ہے ۔وہاں ایک بینک ہے ۔وہان پر انہوں نے پیسے جمع کروائے ہوئے ہیں۔۔جو ہر ایک لاکھ پر 7 ہزار ماہوار دیتے ہیں نفع میں سے۔۔اسکا یہی طریقہ کار ہے کہ ایک لاکھ پر 7 ہزار ماہوار منافع دیتا ہے اور زائد خود رکھ لیتا ہے۔ سننے میں آیا ہوا ہے کہ بینک نے آگے کاروبار کئے ہوئے ہیں۔۔۔چاول،چینی،کپڑے وغیرہ خرید کر کاروبار میں پیسے لگائے ہوئے ہیں۔

بہن نے ایک مولوی سے پتا کروایا ۔انہوں نے بتایا ہے کہ یہ سود میں نہیں ہے اگر کاروبار کیا ہوا ہے ۔جب ہمیں پتا ہے کہ کاروبار کیا ہوا ہے۔۔

برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ یہ سود میں تو نہیں آتا؟؟

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

سوال میں یہ واضح نہیں ہے کہ بینک سودی ہے یا غیر سودی اور نہ ہی اس بات کی وضاحت ہے کہ کسٹمرز صرف منافع میں شریک ہیں یا نقصان میں بھی شریک ہیں۔

نیز اس بات کی بھی وضاحت نہیں ہے کہ جو رقم جمع کروائی جا رہی ہے وہ کس پل( موڈ آف فائنانس ) میں دی جا رہی ہے؟ شرکت پر دی جا رہی ہیں یا مضارت پر۔لہذا واضح حکم تو اسی صورت میں بتایا جاسکتا ہے جبکہ مذکورہ بالا معلومات فراہم کی جائے۔

تاہم سوال سے جو کچھ سمجھ میں آ رہا ہے اس کو دیکھ کر اصولی جواب ملاحظہ ہو:

جواب

مذکورہ بینک چونکہ مقررہ منافع پر معاملہ کر رہا ہے یعنی ہر ایک لاکھ پر فکس پرافٹ( سات ہزار) دے رہا ہے۔جبکہ شرکت اور مضاربت کے جواز کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ منافع فیصد یا حصص کے تناسب سے تقسیم ہو ،مقررہ منافع(فکس پرافٹ) سے نفع کی تقسیم جائز نہیں۔دوسری شرط یہ ہے فریقین نقصان میں بھی شریک ہوں۔نقصان کسی ایک فریق پر ڈالنے سے بھی شرعاً معاملہ ناجائز اور فاسد ہو جاتا ہے۔

اس اصول کی روشنی میں سوال میں مذکور صورت میں اگر چہ بینک جائز کاروبار میں پیسے لگائے پھر بھی بنیادی شرائط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے اس بینک سے معاملہ کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔

(مزید وضاحت کے لیے تہمید میں لکھی ہوئی باتوں کی تفصیل بتا کر دوبارہ سوال پوچھ سکتی ہیں)

===================

حوالہ جات

1.”منہا (شرائط جواز الشرکة) أن یکون الربح معلوم القدر․․․ وأن یکون جزء ًا شائعًا في الجملة لا معینا․․․ أما الشرکة بالأموال فلہا شروط، منہا أن یکون رأس المال من الأثمان المطلقة․․․ وہي الدراہم والدنانیر عنانًا کانت الشرکة أو مفاوضة․․․ولو کان من أحدہما دراہم ومن الآخر عروض فالحیلة فی جوازہ أن یبیع کل واحد منہما نصف مالہ بنصف دراہم صاحبہ ویتقابضاویخلطا جمیعًا حتی تصیر الدراہم بینہما والعروض بینہما ثم یعقدان علیہما عقد الشرکة فیجوز “

(بدائع الصنائع: ۵/۷۷، ط: زکریا دیوبند)

2.”وَأَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ مَعْلُومَ الْقَدْرِ، فَإِنْ كَانَ مَجْهُولًا تَفْسُدُ الشَّرِكَةُ وَأَنْ يَكُونَ الرِّبْحُ جُزْءًا شَائِعًا فِي الْجُمْلَةِ لَا مُعَيَّنًا فَإِنْ عَيَّنَا عَشَرَةً أَوْ مِائَةً أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ كَانَتْ الشَّرِكَةُ فَاسِدَةً، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ.”

(كتاب الشركة، الباب الأوّل في بيان أنواع الشركة، ج:2، ص:302، ط:مكتبه رشيديه)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

قمری تاریخ: 11 صفر،1443ھ

شمسی تاریخ:19 ستمبر،2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں