بوجہ عذر کرسی یا بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں قیام زیادہ ضروری ہے یا زمین پر سجدہ؟

سوال:السلام علیکم!

گھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے، ادا نماز کھڑے ہو کر ہی پڑھنے کی کوشش ہوتی ہے۔۔ بہت زیادہ تکلیف کے باعث مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتی ہوں۔

کیا قضا نماز کرسی پر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے؟اور اس صورت میں سجدہ زمین پر نہیں ہو سکتا۔

پوچھنا یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے میں قیام تو ہو جائے گا، لیکن سجدہ زمین پر نہیں ہو سکتا۔۔

قیام زیادہ ضروری ہے یا زمین پر سجدہ کرنا؟؟

تنقیح: کیا زمین پر سجدہ کرسکتی ہیں؟

جواب تنقیح: جی کرسکتی ہیں۔

وہ یہ معلوم کرنا چاہتی ہیں کہ اگر کرسی پر نماز پڑھیں گی تو قیام ادا ہو جائے گا۔ اور سجدہ زمین پر نہیں ہو گا۔۔

اور بیٹھ کر نماز پڑھنے میں قیام نہیں ہو گا اور سجدہ زمین پر ہو جائے گا۔۔

قیام ادا کرنا زیادہ ضروری ہے یا زمین پر سجدہ کرنا؟

کس چیز میں ثواب زیادہ ہے

الجواب باسم ملھم الصواب

مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ وہ پہلی رکعت کھڑے ہوکر شروع کریں اور پھر باقاعدہ رکوع اور سجدہ بھی کریں، اس کے بعد اگر دوسری رکعت کےلیے اٹھنے میں سخت مشقت ہوتی ہو تو بقیہ نماز زمین پر بیٹھ کر ادا کرلیا کریں تاہم سجدہ زمین پر ہی کریں کیونکہ وہ زمین پر سجدہ کرنے پر قادر ہیں۔ زمین پر سجدہ کرنے کو زیادہ اہمیت حاصل ہے اس لیے مذکورہ صورت میں وہ کرسی پر نماز نہ پڑھیں کیونکہ اس کی وجہ سے وہ زمین پر سجدہ نہیں کرسکے گی۔

قضا نمازیں بھی اس معاملہ میں فرض نمازوں کی طرح ہیں۔

==================

دلائل:-

1۔”فاذا عجز عن القیام، یصلی قاعداً برکوع وسجود، فان عجز عن الرکوع والسجود یصلی قاعداً.“

(بدائع الصنائع: کتاب صلاة، فیارکان الصلاة،زکریا،٢٨٤/١، کراچی،١٠٥/١،المبسوط للسرخسی، دارالمکتب العلمیة، بیروت:٢١٢/١)

2۔ومنها القیام لقادر علیه وعلی السجود، فلو قدر علیه دون السجود ندب إیماؤہ قاعداً“۔

(در مختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، کراچی ۱/٤٤۴، ۴۴۵، زکریا ۲/۱۳۲)

3۔ من تعذر علیه القیام صلی قاعداً، کیف شاء علی المذھب، وقال زفر: کالمتشہد۔وفی الشامیة قال فی البحر:ولا یخفی مافیه؛ بل الایسر عدم التقیید بکیفیة من الکیفیات“.

(الدر المختار مع الشامی: کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، کراچی،٢٥/٢، زکریا، ٥٦٤/٢ تا ٥٦٦)

4۔رد المحتار (کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مطلب بحث القیام، ۲: ۱۳۲، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے: قولہ: (فلو قدر علیہ) أي: علی القیام وحدہ أو مع الرکوع کما فی المنیة۔قولہ: (ندب إیماوٴہ قاعداً) أي: لقربہ من السجود، وجاز إیماوٴہ قائماً کما فی البحر، وأوجب الثاني زفر والأئمة الثلاثة؛ لأن القیام رکن، فلا یترک مع القدرة علیہ۔ ولنا أن القیام وسیلة إلی السجود للخرور، والسجود أصل؛ لأنہ شرع عبادة بلا قیام کسجدة التلاوة، والقیام لم یشرع عبادة وحدہ، حتی لو سجد لغیر اللہ تعالی یکفر بہ بخلاف القیام۔ وإذا عجز عن الأصل سقطت الوسیلة کالوضوء مع الصلاة والسعي مع الجمعة۔ وما أوردہ ابن الھمام أجاب عنہ في شرح المنیة الخ۔

فقط واللہ اعلم بالصواب

2دسمبر 2021ء

26 ربیع الثانی 1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں