بہنوں کا حصہ کم کرنا

سوال:محترم جناب مفتیان کرام!

السلام عليكم ورحمة الله! سوال یہ پوچھنا تھا وراثت کے حوالے سے کہ اگر والدین حیات نہیں ہیں اور گھر تو سب بچوں کی ملکیت کر دیاہوا اور ان کی حق ،بھائی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ بہنوں کو ان کا جائز حق ادا کریں اور اس ضمن میں انھوں نے بہنوں کا حق آدھا مختص کر دیا یعنی جتنا حق بہنوں کا بنتا ہے اس سے آدھا مختص کردیا اور ان کا یہ کہنا کہ ہماری پوزیشن ایسی نہیں کہ بہنوں کو پورا حق ادا کریں آپ سے یہ سوال ہے کہ اس طرح سے کرنا جائز ہے اس طرح سے حق معاف ہوجاتا ہے جبکہ یہنوں سے دستخط کروانا تو دور کی بات پوچھا تک نہیں یہ عمل درست ہے برائے مہربانی جلد جواب عنایت کریں بڑی مہربانی ہوگی۔

تنقیح:

سوال میں یہ مذکور ہے کہ “گھر سب بچوں کی ملکیت دیا ہوا ہے”اس سے کس طرح کی ملکیت مراد ہے؟

جواب:

آپ نے پوچھا کہ گھر بچوں کی ملکیت سے کیا مراد ہے باجی اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی فوت ہو جائے تو اس کا گھر تو بچوں کی ملکیت ہو انہ یعنی کہ اس آدمی کے بارہ اولادیں ہیں اور وه آدمی فوت ہوگیا تو وراثت کی تقسیم کسی طرح ہوگی بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے حالات اچھے نہیں تو انھوں نے بغیر دستخظ کروائے اور نہ پوچھا وراثت جو کہ بہنوں کی ۵۰٪ بنتی ہے 25٪ کردی کیا ان کا یہ عمل جائز ہے اس طرح تو بہنوں کا آدھا حق مارنا ہوا برائے مہربانی اس مسلے کی وضاحت کردیں بڑی مہربانی ہوگی بہت شکریہ

والسلام

الجواب باسم ملہم الصواب

مذکورہ صورت میں مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحوم كا تركہ ہے۔

1⃣ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔

2⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائےاور اگر مرحوم نے بیوی كا حق مہر ادا نہیں كیا تھا اور بیوی نےبرضا و رغبت معاف بھی نہیں كیا تو وہ بھی قرض كى طرح واجب الادا ہے، اُسے بھی ادا كیا جائے اور چونکہ مرحوم کی زوجہ بھی وفات پا چکی ہیں تو مہر کی رقم ان کے وارثوں میں تقسیم کی جائے۔

3⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایک تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔

4⃣ اُس كے بعد جو تركہ بچے اُس میں میت کی ہر ایک بیٹی کو ایک اور ہر ایک بیٹے کو دو حصے دیے جائیں گے۔ یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں ان میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی۔ وراثت والی جائیداد پہلے تمام ورثاء میں باقاعدہ تقسیم کرنا ضروری ہے۔ قبضہ کرنے کے بعد اگر کوئی وارث اپنی مرضی سے اپنا حصہ چھوڑنا چاہے تو اس کی گنجائش ہے۔قبضے سے پہلے کسی وارث کے حصے میں کمی بیشی کرنا ظلم ہے ،جس کی احادیث مبارکہ میں وعید ہے۔

” الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط”. (تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار ،505/7, کتاب الدعوی، ط :سعید)

“لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك”. (الأشباہ والنظائر لابن نجیم، ما یقبل الاسقاط من الحقوق وما لا یقبلہ/ط:قدیمی، ص،309)

“الظلم ظلمات یوم القیامہ”۔(صحيح بخارى،2447)

فقط

و اللہ خیر الوارثین

قمری تاریخ: 23 ذوالقعدہ 1442ھ

عیسوی تاریخ: 3 جولائی 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں