بھیک مانگنا شریعت کی نظر میں

فتویٰ نمبر:1027

سوال:کس شخص کے لیے بھیک مانگنا اور دست سوال دراز کرنا جائز ہے؟

ام فریحہ

لاہور

الجواب بعون الملک الوھاب

جس شخص کے پاس ایک دن کی اپنے اور اپنے بال بچوں کے لیے صبح شام کی روزی ہو اس کے لیے بھیک مانگنا جائز نہیں۔اور جب اتنا بھی نہ ہو تب رخصت ہے۔ اسلام نے صاحب حیثیت لوگوں کے ذمہ رکھا ہے کہ ضرورت مند لوگوں کے حالات کا تفقّد کریں اور ان کی ضروریات کو پوری کرنے کی فکر کریں۔تاکہ ضرورت مند کے لیے بھیک مانگنے کی نوبت نہ آئے۔

“عن قبیصۃ بن المخارق رضی اللہ عنہ قال: تحملت حمالۃ فأتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أسألہ فیہا، فقال: أقم حتی تأتینا الصدقۃ فنأمر لک بہا، ثم قال: یا قبیصۃ! إن المسألۃ لا تحل إلا لأحد ثلاثۃ: رجل تحمل حمالۃ، فحلت لہ المسألۃ حتی یصیبہا ثم یمسک، و رجل أصابتہ جائحۃ اجتاحت مالہ، فحلت لہ المسألۃ حتی یصیب قواما من عیش، أو قال: سدادا من عیش، و رجل أصابتہ فاقۃ حتی یقول ثلاثۃ من ذوی الحجی من قومہ لقد أصابت فلانا فاقۃ، فحلت لہ المسألۃ حتی یصیب قواماً من عیش، أو قال: سدادا من عیش۔ فما سواہن من المسألۃ یا قبیصۃ! سحت، یأکلہا صاحبہا سحتاً۔”

(مسلم:1004،ابو داؤود:1640)

” من سأل وله ما يغنيه جاءت مسألته يوم القيامة خدوشاً أو خموشاً أو كدوحاً في وجهه

قيل : يا رسول الله وما يغنيه ؟قال : خمسون درهما، أو قيمتها من الذهب” 

(أخرجه أبو داود (1626) والنسائي (1 / 363) والترمذي )

“عن أبي هريرة – رضي الله عنه – أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: ((من سأل الناس أموالهم تكثرًا، فإنما يسأل جمرًا؛ فليستقل أو ليستكثر))”( رواه مسلم)

فقط-واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

بنت ممتاز غفرھا اللہ

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی

9رجب،1439ھ/28 مارچ ،2018ء

اپنا تبصرہ بھیجیں