Black/Blessed Friday کی سیل کا حکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Blessed/Black Friday کی سیل کیا جائز ہے؟

جواب:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

جمعہ ایک مبارک دن ہے جومسلمانوں کی عبادات کے ساتھ مخصوص ہے ،حدیث شریف کی بنا پر اس دن کو تمام دنوں کا سردار کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ اس دن کی تعظیم و احترام کا حکم دیا گیا ہے ۔

بلیک فرائیڈے غیر مسلموں کا ایک معاشرتی اور ثقافتی تہوار ہے ۔اس کو سیاہ کہنے کی بہت سے وجوہات ذکر کی جاتی ہیں، لیکن کسی بھی سبب کی وجہ سے مسلمانوں کا اس دن کو سیاہ کہنا یا اس کو ثقافتی تہوار کی حیثیت سے منانا نہ صرف یہ کہ غیروں کی نقالی کی بنا پر جائز نہیں، بلکہ جمعے کی تعظیم کے بھی خلاف ہے۔ تاہم اگر کسی نے اس دن سیل لگا لی اور لوگوں نے خرید و فروخت کرلی تو اس نفع یا خرید کو حرام نہیں کہا جائے گا۔

یہ بھی یاد رہے کہ شریعت اسلام میں کوئی دن ،رنگ منحوس نہیں ،لیکن عرف کے اعتبار سے اگر کوئی لفظ غیر مناسب ہے تو اس کو استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ چنانچہ عرفاً ”سیاہ دن “ کہنا اچھے معنیٰ میں استعمال نہیں ہوتا، جیسے: سیاہ مستقبل اور سیاہ کرتوت وغیرہ۔ ایک حدیث مبارک میں بھی اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں ”سیاہ نقطہ“ دل پر لگنے کا ذکر ہے جو کہ بد بختی کی علامت ہے ،لہذا عرف کا اعتبار کرتے ہوئے چونکہ سیاہ دن مناسب معنیٰ میں استعمال نہیں ہوتا ہے، لہذا جمعے کو سیاہ کہنا جائز۔

غیر مسلموں کے اس تہوار کے مقابلے میں کچھ مسلمان تاجر BLESSED FRIDAY (جمعہ مبارک سیل) لگاتے ہیں ،جس میں اشیا کی قیمتوں میں رعایت دی جاتی ہے یہ مستحسن عمل ہے ۔آپ ﷺ سے باقاعدہ یہود و نصاری کے عادات و خصائل کی مخالفت کرنا ثابت ہے ۔ چنانچہ BLESSED FRIDAYکی سیل سے خریداری کرنا بلا شبہ درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

﴿یَآ أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾(آل عمران: 156)

ترجمہ: اے ایمان والو!تم نہ ہو (جاوٴ)ان کی طرح جو کافر ہوئے۔(تفسیر عثمانی، ص: 90)

(1) عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا (صحیح مسلم حدیث نمبر: 1976)

ترجمہ:ابن شہاب نے کہا : مجھے عبد الرحمٰن اعرج نے خبر دی انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :”بہترین دن جس پر سورج طلوع ہو تا ہے جمعے کا دن ہے اسی دن آدم پیدا کیے گئے اور اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن اس سے نکا لے گئے۔

(2)عن ابیِ لبابۃَ بْنِ عبدِالمُنذرِقَال:قَال رَسُوْلﷺانّ َیِّدُ الْأَیَّامِ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ وَأَعْظَمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَأَعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ یَوْمِ الْفِطْرِ وَیَوْمِ الْأَضْحٰی وَفِیْہِ خَمْسُ خِلَالٍ: خَلَقَ اللّٰہُ فِیْہِ آدَمَ، وَأَھْبَطَ اللّٰہُ فِیْہِ آدَمَ اِلَی الْأَرْضِ، وَفِیْہِ تَوَفَّی اللّٰہُ آدَمَ، وَفِیْہِ سَاعَۃٌ لَا یَسْأَلُ الْعَبْدُ فِیْہَا شَیْئًا اِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اِیَّاہُ، مَالَمْ یَسْأَلْ حَرَامًا وَفِیْہِ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ، مَا مِنْ مَلَکٍ مُقَرَّبٍ وَلَا سَمَاء وَلَا أَرْضٍ وَلَا رِیَاحٍ وَلَا جِبَالٍ وَلَا بَحْرٍ اِلَّا ھُنَّ یُشْفِقْنَ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ۔) (مسند احمد: 15633)

ترجمہ:(سیّدنا ابولبابہ بدری بن عبد المنذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا) جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ کے ہاں دنوں کا سردار اور عظیم ترین ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عید الفطر اور عید الاضحی کے دنوں سے بھی عظیم ہے، اس میں پانچ خصائل ہیں: (۱) اللہ تعالیٰ نے اس میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا،(۲) اسی میں ان کو زمین پر اتارا، (۳) اور اسی میں ان کو فوت کیا، (۴)اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا بھی سوال کرتا ہے، وہ اسے عطا کر دیتا ہے، جب تک حرام کاسوال نہ کرے، اور (۵)اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، یہی وجہ ہے کہ مقرب فرشتے، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ، سمندر، یہ تمام جمعہ کے دن سے ڈرتے ہیں (کہ کہیں اسی جمعہ کو قیامت برپا نہ ہو جائے)

(3) عَنْ أَوْسِ بْنِ أَبِی أَوْسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم :مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ، فِیْہِ خُلِقَ آدَمُ وَفِیْہِ قُبِضَ، وَفِیْہِ النَّفْخَۃُ وَفِیْہِ الصَّعْقَۃُ، فَأَکْثِرُوا عَلَیَّ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیْہِ فَاِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَۃٌ عَلَیَّ۔ فَقَالُوا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَکَیْفَ تُعْرَضُ عَلَیْکَ صَلَاتُنَا وَقَدْ أَرِمْتَ یَعْنِی وَقَدْ بَلِیْتَ؟ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاء صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ (مسند احمد: 16262)

ترجمہ:سیّدنا اوس بن اوس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنوں میں افضل ترین جمعہ کا دن ہے،اس میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور فوت کیا گیا،اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سب بے ہوش ہونگے ۔ لہٰذا تم مجھ پر اس دن کثرت سے درود بھیجا کرو، کیونکہ تمہارا یہ درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا، جبکہ آپ تو (مٹی میں) فنا ہو چکے ہوں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔

(4) سنن ابی داود میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

مَن تشبّہ بقوم فھو منھم۔ (سنن ابو داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: 4030)

”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․

علامہ سہارنپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مشابہت عام ہے ، خیر کے کاموں میں ہو یا شر کے کاموں میں، انجام کار وہ ان کے ساتھ ہو گا، خیر یا شر میں۔(بذل المجہود: 4/ 59)

مَنْ تَشَبَّہَ “ کی شرح میں ملا علی القاري لکھتے ہیں کہ: ”جو شخص کفار کی، فساق کی، فجار کی یاپھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں (ہو یا کسی اور صورت میں) مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،رقم الحدیث:4347، 8/222،رشیدیہ)

ایک اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے”

”فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس“

” ہم میں،اور مشرکین کے درمیان فرق (کی علامت ) ٹوپیوں پر عمامہ کا باندھنا ہے“۔ یعنی:ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں اور مشرکین بغیر ٹوپی کے عمامہ باندھتے ہیں۔(سنن ابی داوٴد، کتاب اللباس، رقم الحدیث: 4078۔ مرقاة المفاتیح، رقم الحدیث: 4340، 8/215)

فقط واللہ اعلم۔

4/دسمبر/۲۰۲۱

28/ربیع الثانی/۱۴۴۳ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں